مصیبتوں کا نازل ہونا اور اسکو ختم کرنا ۔

0
51
مصیبتوں کا نازل ہونا اور اسکو ختم کرنا ۔

مصیبتوں کا نازل ہونا اور اسکو ختم کرنا ۔

مصائب و آلام اور تکالیف و حوادث انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں ،اس فانی دنیا میں  عمرِ عزیز کی چند ساعتیں  عیش کی گھنی چھاؤں  میں  بڑے سکون سے گذرتی ہیں  اور کچھ گھڑیاں  رنج کی جھلساتی ہوئی دھوپ میں  کٹ جاتی ہیں ، حیاتِ مستعار کے آنگن میں  کبھی مسرتیں  ڈیرے ڈال کر لمحات کو خوشگوار  بنا دیتی ہیں  تو کبھی غم و اندوہ کے جھکڑ خوشیوں  کے آشیانے کو تنکا تنکا کر دیتے ہیں ،رنج و الم سے عبارت یہ زندگی کی ہچکولے کھاتی ہوئی کشتی اپنے دامن میں  زمانے کی تلخ وشیریں  یادیں  لیے ہوئے آخرموت کے ساحل پر لنگر انداز ہو جاتی ہے۔یہ سفرِ حیات اتنا کٹھن کیوں  ہے؟ مصیبتیں  کیوں  انسان کو گھیر لیتی ہیں ؟خدا تو اپنے بندے سے ماؤں  سے ہزاروں گنا بڑھ کر پیار کرتا ہے پھر انھیں  آزمائش کی چکی میں  کیوں  پیستا ہے؟ اس سوال کا جواب پانے کے لیے بنیادی طور پر یہ ذہن نشین کر لیں  کہ اللہ تعالی نے قرآنِ کریم میں  جا بجا اپنی صفت حکیم ذکر فرمائی ہے اور حکیم ایسی ذات کو کہا جاتا ہے جس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں  ہوتا لہٰذا آفات و بلیات کے نازل ہونے میں  بھی اس کے حکیمانہ فیصلے اور دانشمندانہ امر کو دخل ہوتا ہے۔اب وہ کون سے اسباب و وجوہات اور کیامصلحتیں  ہیں  جن کی وجہ سے بلائیں  اترتی ہیں  ؟

                نزولِ مصائب کی پہلی وجہ مومن بندے کی آزمائش ہوتی ہے ،اللہ کی ذات  علام الغیوب ہے لیکن اہلِ دنیا پر واضح کرنے  کے لیے کہ میرا بندہ مصیبت آنے پر صبر کرتا ہے یا بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے،مختلف طریقوں  سے آزماتا رہتا ہے، ۔

آفات کے نازل ہونے کادوسرا سبب مسلمان کے گناہوں  کا کفارہ ہے ،اللہ تعالی مصیبت میں  مبتلا فرماکر گناہوں  کا بدلہ دنیا میں  ہی دے دیتے ہیں اور آخرت کی سزا سے بچا لیتے ہیں ،

                زندگی کی الجھنوں  ،مشقتوں  اور مصیبتوں کا آخری اور عمومی سبب انسان کی بد عملی ، فسق و فجور،خدا کی حکم عدولی اورشریعت کے احکام سے روگردانی ہے۔اللہ تعالی جب گناہوں  کی وجہ سے اپنے بندے پرناراض ہوتاہے تو اس پر اپنی رحمت کے دروازے بند کر دیتا ہے اوراس کی زندگی سے راحت و سکون ختم کر دیتا ہے جس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ مسرت و شادمانی کے تمام اسباب و وسائل کے ہوتے ہوئے بھی دل بے چین رہتا ہے۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے ارشادات میں  مختلف گناہوں کو مختلف مصیبتوں  کے نازل ہونے کا سبب بتایا ہے ، سنن ابنِ ماجہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اے مہاجرین !پانچ چیزیں  ایسی ہیں  کہ جب تم ان میں  مبتلا ہو جاؤ گے اور میں  اللہ سے پناہ چاہتا ہوں  اس بات سے کہ تم ان کا ارتکاب کرو (۱)جب کسی قوم میں  اعلانیہ بے حیائی ہو گی تو اس میں  طاعون اور ایسی ایسی بیماریاں  جنم لیں  گی جو انھوں  نے اور ان کے آباء و اجداد نے بھی نہیں  سنی ہوں  گی۔(۲)جو قوم زکوۃ ادا نہیں  کرے گی وہ بارش سے محروم ہو جائے گی اور اگر جانور نہ ہوتے تو پانی کی ایک بوند نہ برستی (۳)جو قوم ناپ تول میں  کمی کرے گی وہ قحط سالی ،رزق کی تنگی اور بادشاہوں  کے ظلم میں  گرفتار ہو جائے گی (۴)جب امراء اللہ کے نازل کردہ احکام کے خلاف فیصلے کریں  گے تو دشمن ان پر مسلط ہو جائے گا جو ان کی چیزیں  ان سے چھین لے گا (۵) جب لوگ اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت کو چھوڑ بیٹھیں  گے تو باہمی خانہ جنگی میں  پڑ جائیں  گے۔

                مسائل کے حل اور مصائب کو رفع کرنے کے سلسلہ میں  شریعت نے چار اعمال کرنے کی ترغیب دی ہے جو غم کو ہلکا کرنے اور دل کی تسلی میں  معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔سب سے پہلا کام یہ ہے کہ غم کی خبر سنتے ہی استرجاع یعنی ’’انا للہ وانا الیہ راجعون ‘‘ پڑھے جس کی حقیقت اللہ تعالی کے اس فیصلے کو برضاء و رغبت قبول کرنے کا اعلان ہے۔دوسرا کام  اپنے آپ پر ضبط کرنا اور خدا تعالی کے بارے میں  کسی بھی فاسد خیال یا زبان سے کسی نامناسب جملہ کے ادا کرنے سے بچنا ہے،اس کو صبر کہا جاتا ہے۔تیسرے نمبر پرمبتلاء بہ شخص کے کرنے کا کام یہ ہے کہ صلوۃ الحاجت ادا کرکے تمام آداب کی رعایت رکھتے ہوئے خوب عاجزی اور انکساری سے دعا مانگے۔آخری ہدایت یہ ہے کہ حسبِ استطاعت صدقہ ادا کرنے کا اہتمام کرے اور اگر فی الوقت دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو بعد کے لیے نذر مان لے۔اس سب کے بعد بھی اگر مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہ آئے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالی نے اس کا اجر آخرت کے لیے ذخیرہ کر لیا ہے یا چھوٹی مصیبت دے کر بڑی مصیبت سے بچا لیا ہے، ترمذی میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یَوَدُّ أھْلُ العافیۃِ یومَ القیامۃِ حینَ یُعْطیٰ أھْلُ البلائِ الثوابَ لو أنَّ جلودَھم کانت قُرِضَتْ فی الدنیا بالمقاریض ’’ جب اہلِ بلاء کو قیامت کے دن بدلہ دیا جائے گا تو تو اہل ِعافیت یہ خواہش کریں  گے کہ کاش! دنیا میں ان کی کھالوں  کو قینچیوں  سے کاٹ دیا جاتا‘‘۔