زبان اور اس کی خصوصیات

0
32

.زبان اور اس کی خصوصیات

 زبان کیا ہے ،زبان کی کیا خصوصیات ہیں اور کس طرح ایک زبان ادب کی تخلیق کرتی ہے ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کےجوابات دینے کے لیے ایک استاد،شاعر ،ادیب ،نقاد اور محقق سے پہلے اپنے آپ کو ادب کا ایک معمولی طالب علم بننا بہت ضروری ہے ۔اس دنیا میں بے شمار اشیا ہیں جن پر ہم نے کبھی غور نہیں کیا ،ان میں ایک ’’زبان ‘‘ بھی ہے ۔

اس زبان کی اہمیت وہی جانتا ہے جس کے پاس زبان نہیں ہے ۔ایک ہوتا ہے کمیونی کیشن اور دوسری ہوتی ہے زبان ،کمیو نی کیشن زبان نہین ہے ،کمیونیکیٹ کوئی بھی چیز ہو سکتی ہے ،جیسے ایک چراغ روشنی کمیونیکیٹ کرتا ہے مگر ہم اس کو زبان نہیں کہتے ۔قدرت نے انسان کی پیدائش کے بعد اسے سب سے پہلے زبان عطا کی (خلق الانسان علمہ البیان)۔کچھ دانشوروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسان کی تخلیق سے پہلے لفظ کی تخلیق ہوئی مثلاََ اللہ تعالیٰ نے آدم کی تخلیق سے قبل فرشتوں سے جو کلام کیا وہ بھی ایک زبان سے کیا۔اگر کمیونی کیشن کو ایک وسیع اصطلاح مان لیا جائے تو زبان اس کا سب سے بڑا حصہ ہو گی۔اس حوالے سے پروفیسر گیان چند جین لکھتے ہیں :

’’انسان کو حیوان ناطق کہا گیا ہے ۔گویا انسان کی جانوروں پر سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ وہ زبان (بھاشا) کا استعمال کرتا ہے ،اس کے ذریعے اپنے جذبات و خیالات اپنے ساتھیوں تک پہنچا سکتا ہے ۔۔۔جس طرح انسان انسانی زبان میں بات چیت کرتے ہیں اسی طرح حیوان بھی اپنی اپنی آوازوں میں کسی زبان کا ستعمال کرتے ہوں گے‘‘

زبان کی خصوصیات: زبان کی بیان کی ہوئی مختصر تعریف کے بعد یہ ضروری ہے کہ اس کی چند خصوصیات کا مطالعہ کیا جائے کیوں کہ کسی بھی چیز کی خصوصیات کو ہی پیش نظر رکھ  کر اس کی سماجی و ادبی اہمیت کو دیکھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔

’’زبان مورثی نہیں ہے‘‘ زبان کے حوالے سے یہ خصوصیت اپنی جگہ اہم ہے کہ زبان بنیادی طور پر مورثی نہیں ہوتی یعنی کہ بولنے والے کو کسی بھی زبان کی صلاحیت اس کے آباو اجداد یا والدین کی طرف سے منتقل نہیں ہوتی بلکہ زبان ماحول کی دین ہوتی ہے وراثت کی دین نہیں ہوتی ۔یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنی مادری زبان اپنے والدین سے ہی سیکھتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ زبان وراثتی ہے ۔اس بات کو سمجھنے کے لیے یہ مثال اہم ہے کہ اگر کسی بھی نو مولود بچے کو ہم اپنے سماج یا ملک سے باہر کسی اجنبی ملک یا ایسی جگہ بھیج دیں جہاں ہماری مادری زبان بالکل نہیں بولی جاتی تو وہ ہمارا بچہ وہیں دوسری زبان کو بولنا شروع کر دے گا اور اپنی مادری زبان کو کبھی بھی نہیں بول پائے گا ۔اسی طرح اگر ایک نو زائدہ بچے کو ہم جنگل میں جانوروں کے پاس چھوڑ آئیں تو وہ وہاں پر بھی جا کر صرف ان جنگلی جانوروں کی طرح ہی غوں غوں کرتا ہوا واپس آئے گا اور کوئی زبان نہیں سیکھ پائے گا ۔اسی لیے یہ کہنا اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ زبان مورثی نہیں ہے ۔