علامہ اقبال کی سوانح اور شخصیت

0
4802

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال ( ولادت : 9 نومبر 1877 ء – وفات : 21 اپریل 1938 ء ) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر ، مصنف ، قانون دان ، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے ۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے ۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا ۔ ” دار یکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام ” کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی ۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے ۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کار نامہ نظریہ پاکستان کی تشکیل ہے ، جو انہوں نے 1930 ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا ۔

یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا ۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے ۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے ۔
اقبال کی ولادت و ابتدائی زندگی

اقبال کے والد شیخ نور محمد کشمیر کے پروپر ہمنوں کی نسل سے تھے ۔ غازی اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں ان کے ایک جد نے اسلام قبول کیا ۔ اقبال کے آباء و اجداد اٹھارویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آۓ اور محلہ کھیتیاں میں آباد ہوۓ ۔ ہر پشت میں ایک نہ ایک ایسا ضرور ہوا جس نے فقط دل سے راور کھی ۔ یہ بھی انہی صاحب دلوں میں سے تھے ۔ بزرگوں نے کشمیر مچھوڑا تو سیالکوٹ میں ہے ۔

سولہ برس کی عمر میں اقبال نے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ فرسٹ ڈویژن آئی اور تمغا اور وظیفہ ملا ۔ اسکاچ مشن اسکول میں انٹر میڈیٹ کی کلاسیں بھی شروع ہو چکی تھیں لہذا اقبال کو ایف اے کے لیے کہیں اور نہیں جانا پڑا ، وہیں رہے ، یہ وہ زمانہ ہے جب ان کی شاعری کا با قاعد وآغاتر ہو تا ہے ۔ یوں تو شعر و شاعری سے ان کی مناسبت بچپن ہی سے ظاہر تھی ، کبھی کبھی خود بھی شعر موزوں کر لیا کرتے تھے مگر اس بارے میں سنجیدہ نہیں تھے ، نہ کسی کو سناتے نہ محفوظ رکھتے لکھتے اور پھاڑ کر پھینک دیتے ۔ لیکن اب شعر گوئی ان کے لیے فقط ایک مشغلہ نہ رہی تھی بلکہ روح کا تقاضا بن چکی تھی ۔ اس وقت پورا بر صغیر داغ کے نام سے گونج رہا تھا ۔ خصوصاً اردوزبان پر ان کی مجزانہ گرفت کا مہر کسی کو اعتراف تھا ۔ اقبال کو یہی گرفت درکار تھی ۔
شاگردی کی درخواست لکھ بھیجی جو قبول کر لی گئی ۔ مگر اصلاح کا یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا ۔ داغ جگت استاد تھے ۔ متحدہ ہندوستان میں اردو شاعری کے جتنے بھی روپ تھے ، ان کی تراش خراش میں داغ کا قلم سب سے آگے تھا ۔ لیکن یہ رنگ ان کے لیے بھی نیا تھا ۔ گو اس وقت تک اقبال کے کلام کی امتیازی خصوصیت ظاہر نہ ہوئی تھی مگر داغ اپنی بے مثال بصیرت سے بھانپ گئے کہ اس ہیرے کو تراشا نہیں جاسکتا ۔ یہ کہ کر فارغ کر دیا کہ اصلاح کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے ۔ مگر اقبال اس مختصر سی بنا گردی پر بھی ہمیشہ نازاں رہے ۔ کچھ یہی حال داغ کا بھی رہا ۔

علامہ اقبال کی شاعری _

کُلیّاتِ اِقبال[21]
نثر

علم الاقتصاد – 1903ء
فارسی شاعری

اسرار خودی – 1915ء
رموز بے خودی – 1917ء
پیام مشرق – 1923ء
زبور عجم – 1917ء
جاوید نامہ – 1932ء
مسافر – 1936ء
پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق – 1931ء
اُردو شاعری

مہدف مقالہ: اردو شاعری
بانگ درا – 1924ء[22]
بال جبریل – 1934ء[23]
ضرب کلیم – 1936ء[24]
فارسی +اُردو شاعری

ارمغان حجاز – 1938ء[25]
انگریزی تصانیف

فارس میں ماوراء الطبیعیات کا ارتقاء – 1908ء
اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو – 1930ء

علامہ محمد اقبال 21 اپریل 1938 ء بمطابق ۲۰ ، صفر المصفر ۱۳۵۷ ء کو فجر کے وقت اپنے گھر جاوید منزل میں طویل علالت کے باعث خالق حقیقی سے جاملے۔ علامہ اقبال کو لاہور میں بادشاہی مسجد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا ۔

آپ کا مزار لاہور بادشاہی مسجد کے احاطے میں ہے۔