تکبر کسے کہتے ہیں اور اسکا انجام کیا ہے
تکبر کی تعریف:خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔
دیگر عصری معاشروں کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی ہر شعبے میں متکبر لوگ موجود ہیں۔ تجارت‘ سیاست‘ سرکاری اداروں‘ بڑے نجی اداروں اور علم و تحقیق کی دنیا سے وابستہ بہت سے لوگ تکبر کے راستے پر ہیں۔ اپنے منصب ‘ اثرورسوخ ‘ سرمائے اور قابلیت کو اللہ تعالیٰ کی عطا سمجھنے کی بجائے اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھنے کا چلن ہمارے معاشرے میں بھی عام ہے۔
کتاب وسنت کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ غرور اور تکبر کو انتہائی نا پسند فرماتے ہیں اور عاجزی اور انکساری اختیار کر نے والوں کو ہمیشہ سر بلند کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں ابلیس کی ذلت کی وجہ یہ بیان کی کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا راستہ اختیار کیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس کو فرشتوں کی جماعت سمیت حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے جھکنے کا حکم دیا تو اس نے انکار اور تکبر کیا۔ اس سرکشی کی وجہ سے وہ قیامت کے دن تک کے لیے راندۂ درگاہ ہو گیا ۔
احادیث مبارکہ میں بھی تکبر کے حوالے سے بڑے واضح انداز میں احکامات بیان کیے گئے ہیں۔ جن میں سے دو اہم احادیث درج ذیل ہیں:۔
۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : ”اللہ تعالیٰ اس کی طرف قیامت کے دن نظر رحمت نہیں کرے گا ‘جو اپنا کپڑا تکبر و غرور سے زمین پر گھسیٹ کر چلتا ہے‘‘۔
دنیا میں بالعموم طاقتور متکبر آدمی دوسروں کو حقیر جانتا ہے اور اپنی حیثیت اور طاقت پر گھمنڈ کا مظاہرہ کرتا ہے‘ لیکن قیامت کے دن معاملہ یکسر جدا ہو گا ۔ اس حوالے سے اہم احادیث درج ذیل ہیں:
۔ صحیح بخاری میں حضرت حارثہ بن وہب الخزاعی ؓسے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺسے سنا ‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ میں تمہیں بہشتی آدمی کے متعلق نہ بتا دوں۔ وہ دیکھنے میں کمزور ناتواں ہوتا ہے ( لیکن اللہ کے یہاں اس کا مرتبہ یہ ہے کہ ) اگر کسی بات پر اللہ کی قسم کھا لے تو اللہ اسے ضرور پوری کر دیتا ہے اور کیا میں تمہیں دوزخ والوں کے متعلق نہ بتا دوں ہر بدخو‘ بھاری جسم والا اور تکبر کرنے والا ہے۔
اسی طرح ؛اگرچہ احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو گا‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو جنت میں داخل نہیں فرمائیں گے‘ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اچھا لباس پہننا‘ اچھاکھانا کھانا‘ جب انسان کی نیت دکھلاوے یا دوسروں کو حقیر جاننے کی نہ ہو تکبر میں شامل نہیں۔ صحیح مسلم میں اس حوالے سے مذکور ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے نبی کریمﷺ سے روایت کی ‘ آپ نے فرمایا : ” جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہو گا ‘ وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔ ‘ ‘ ایک آدمی نے کہا : انسان چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کے جوتے اچھے ہوں ۔ آپ نے فرمایا : ” اللہ خود جمیل ہے ‘ وہ جمال کو پسند فرماتا ہے ۔ تکبر ‘ حق کو قبول نہ کرنا اورلوگوں کو حقیر سمجھنا ہے ۔ ‘ ‘
کتاب وسنت کی تعلیمات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ کی نعمتوں کے حصول کے لیے تگ ودو کرنا اور اپنی جائز ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرنا ہر اعتبار سے درست ہے ‘جبکہ دوسروں کو حقیرجاننا اور خود پسندی کا شکار رہنا اور بلند بانگ دعویٰ کرنا کسی بھی طور پر درست نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تکبر کی بجائے عاجزی اور انکساری کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق دے۔(آمین)