تواضع کیا ہے۔

0
46

تواضع کیا ہے۔

تواضع کیا ہے؟ دل میں کشادگی رکھنا، عجز و انکسار کو اپنانا، بندگان خدا سے محبت کرنا، اُن کی مدد اور اُن کے ساتھ حسن سلوک کرنا، وغیرہ۔ یہ لفظ کئی قیمتی صفات کو جامع ہے ، اللہ تواضع کرنے والوں کو رفعت عطا کرتا ہے۔

تواضع کے معنی ہیں:’’عجزو انکسار، اپنے آپ کو فروتر سمجھنا، دوسروں کوحسب ِ مراتب احترام دینا‘‘، اس کے ایک معنی ہیں:’’حق کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا اور شریعت کے حکم کو بلاچوں وچرا تسلیم کرنا۔‘‘
دینی امور میں تواضع کے معنی ہیں: رب کی رضا پر راضی ہونا، یعنی بندہ رب کی بندگی محض اس لئے نہ کرے کہ دین کی بات اس کی رائے، خواہش، مزاج اور عادت کے مطابق ہے، بلکہ اس لئے کرے کہ وہ شارع کا حکم ہے۔ دین کے لئے عاجزی اختیار کرنا، یعنی رسول اللہ ﷺ کے حکم کے آگے جھک جانا۔ تواضع اعلیٰ انسانی قدر ہے، اللہ تعالیٰ کو بندے کا یہ وصف بہت پسند ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’صدقے سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی، معاف کرنے سے اللہ عزت میں اضافہ فرماتا ہے اور جو کوئی اللہ کی رضا کیلئے تواضع کرتا ہے، اللہ اُسے رفعت عطا فرماتا ہے۔‘‘ (مسلم) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تواضع کا قائل بندہ اپنے دل میں کشادگی رکھتا ہے اور دوسروں کی غلطی معاف کردیتا ہے۔ ایک عَجز و انکسار اضطراری ہے، یعنی حالات کے جبرکا نتیجہ ہوتا ہے۔ شیخ سعدی نے کہا ہے: ’’گداگر تواضع کند خوئے اُوست‘‘۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ فقیر اگر عاجزی اختیار نہ کرے، تو اُسے خیرات کون دے گا، یہ تو اس کی مجبوری ہے، لیکن اگر کوئی صاحبِ منصب تواضع کرے تو یہ اس کا وصف ِکمال ہوتا ہے اور اس کی خوبی قرار پاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے نتیجہ میں اسے رفعت و سرفرازی عطا فرماتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عائشہ! اگر میں چاہوں تو سونے کے پہاڑ میرے ساتھ چلیں، میرے پاس ایک فرشتہ آیا، اس کی کمر کعبے کے برابر تھی، اس نے کہا: آپ کا رب آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے: آپ چاہیں تونبوت اور بندگی کو اختیار کرلیں اور چاہیں تو نبوت اور بادشاہت کو اختیار کرلیں، تو میں نے جبریل علیہ السلام کی طرف دیکھا، انہوں نے مجھے اشارہ کیا کہ عاجزی کو اختیار کریں، تو میں نے کہا: میں  نبوت اور بندگی کو اختیار کرتا ہوں۔‘‘ (شرح السنہ،ج۱۳)
’’معراج النبی ﷺ کے موقع پر جب نبی ﷺ درجاتِ عالیہ اور مراتب ِ رفیعہ میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی: ’’اے محمد! میں آپ کو شرف دینا چاہتا ہوں، آپ ﷺ نے عرض کیا: اے میرے رب! مجھے اپنی عبودیتِ خاصّہ کا شرف عطا کیجئے تو اللہ تعالیٰ نے آیتِ معراج نازل فرمائی۔‘‘ (سبل الھدیٰ والرشاد، ج۳)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کا فقر اضطراری نہیں بلکہ اختیاری تھا، چنانچہ آپؐ نے فرمایا: ’’مجھے کمزوروں میں تلاش کرو، کیونکہ تمہیں انہی کمزوروں کی (دعائوں کی) برکت سے رزق عطا کیا جاتا ہے اور نصرتِ الٰہی نصیب ہوتی ہے۔‘‘ (ترمذی)