غصے کے علاج کے حوالے سے کچھ تجاویز پیش کی جاتی ہیں 

0
51

. غصے کے علاج کے حوالے سے کچھ تجاویزات 

غصہ کا ایک سبب خود ساختہ تصورات مثلاً خاندان، قبیلہ، رنگ، نسل کی وجہ سے ایک بلاوجہ کی بڑائی کا شکار ہوجانے سے غلط فہمی میں خود کو افضل سمجھنا، کسی کی معمولی بدسلوکی پر اپنی پہچان جتا کر غصہ کرنا ہے۔ غصے کے حوالے سے سب سے پہلے یہ اصول سمجھنا ضروری ہے کہ غصہ انسانی خواہشات اور جذبات کا لازمی جز ہے لہٰذا غصے کے علاج کے حوالے سے جو بھی علاج ذکر کیا جائے گا، وہ غصے کو قابو کرنے کے طریقے ہوں گے نہ کہ ختم کرنے کے۔

رسول اکرم ﷺ کے مبارک ارشاد کا مفہوم ہے: ’’پہلوان وہ نہیں ہے جو ایک ہی وار میں مقابل کو گرا دے، بل کہ حقیقی پہلوان وہ ہے جو عین غصے کے وقت اپنے اوپر قابو رکھے۔‘‘ دل اس بات کا شدّت سے تقاضا کر رہا ہو کہ اس کو کھری کھری سناؤں، تھپڑ رسید کروں، گالیاں دوں، اپنی بھڑاس نکال دوں، گھر والوں پر چیخ چیخ کر اپنی بڑائی جتاؤں، غرض اپنے ہاتھ پیر یا زبان کے استعمال سے اپنے کلیجے کو ٹھنڈک پہنچاؤں اور مجھے کوئی روک ٹوک کرنے والا بھی نہیں ہو۔ ٹھیک ایسی حالت کے دوران اپنے آپ پر قابو کرنا اور نظرانداز اور درگزر سے کام لینا یہ واقعی بہت بڑے پہلوان سے بھی بڑھ کر طاقت ور بننے والی خوبی ہے۔

غصے کے علاج کے طور پر کچھ طریقے ہیں جو مستقل علاج کی حیثیت رکھتے ہیں، جن میں بعض اولیاء اﷲ ایک طریقہ ارشاد فرماتے ہیں کہ غصہ میں مبتلا شخص اپنے عیوب پر ہر حال میں نظر رکھے، اپنے عیوب پر نگاہ رکھنے والا شخص ہمیشہ عاجزی اور اپنی اصلاح کی فکر میں مگن رہے گا اور اسے یہ فکر کبھی بھی اپنے مخاطب پر چڑھائی کرنے سے روکتی رہے گی، ان شاء اﷲ۔

غصے کو قابو کرنے کا ایک مفید علاج یہ بھی ہے کہ غصے کے دوران عذابِ الٰہی اور اﷲ کی قدرت کو ذہن میں دہرائے جیسا کہ روایت میں ہے کہ ایک بار حضرت صدیق اکبرؓ اپنے ایک غلام کو ڈانٹ رہے تھے تو آپؐ نے صدیق اکبرؓ سے فرمایا: ’’اﷲ تم پر اس سے زیادہ اختیار رکھتا ہے جتنا تم اپنے اس غلام پر رکھتے ہو۔‘‘ یعنی ہم جس پر غصہ کرکے اپنی بھڑاس نکال رہے ہوتے ہیں، وہ درحقیقت ہمارا اختیار ہوتا ہے، جسے ہم استعمال کرتے ہیں، اس سے بڑھ کر اختیار رب کو اپنے اس بندے پر ہے، لہٰذا ہم اگر اﷲ سے معافی، درگزر، لحاظ، چھوٹ اور رعایت کو پسند رکھتے ہیں تو لوگوں کے ساتھ بھی اپنے رویّے میں اس چیز کو پسند رکھیں۔

ایک اہم علاج یہ ہے کہ غصہ جس جگہ آرہا ہے، وہاں سے فوری اتنا دور ہٹ جائیں کہ وہ شخص ہمیں نظر نہ آئے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ غصے کا اصل سبب انسان کے جسم میں موجود حرارت کے مادّے ہیں اور حرارت کا سبب حرکت ہے، جتنی حرکت ہوگی یعنی جتنا زیادہ بولے گا، جواب دے گا، جتنا ہاتھ اٹھائے گا، جتنا سوچے گا، انتقام کے جذبے کے سبب حرکت بڑھتی رہے گی اور جیسے ہی وہ اپنی جگہ بدل لے گا سکون میں آئے گا اور ایسی حرکات سے پرہیز کرے گا تو حرارت کم ہوگی، جس کے نتیجے میں غصے کے جذبات بھی کم ہوں گے، جس کے لیے اسلامی تعلیمات کے مطابق علماء نے مختلف مختصر علاج تجویز کیے ہیں۔

مثلاً تکرار سے بچنا، جواب الجواب سے پرہیز کرنا، اس موقع پر کمرہ، گھر، دفتر یا اس مخصوص جگہ سے اتنی دور جانا کہ وہ شخص نظر نہ آئے اور گفتگو کا موضوع بدل جائے۔ وضو کرلینا، پانی پی لینا، تعوّذ پڑھ لینا وغیرہ۔ یہ سب تجاویز جسم میں موجود اس حرارت کو مزید حرکت دینے سے روکنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ الغرض غصہ آجائے تو اسے نظر انداز کرے اور اس موقع پر کوئی بھی چھوٹا بڑا فیصلہ کرنے سے گریز کرے اور غصے کو خود پر حاوی ہونے نہ دے۔ غصہ ایک کیفیت ہے جس سے باہر نکل جانے کی صورت میں وہ کیفیت یکسر ختم ہوجاتی ہے۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ غصہ کا دورانیہ ماہرین کے مطابق دس منٹ سے زیادہ نہیں ہوتا لہٰذا کسی بھی طرح ان دس منٹ کو بہلا پھسلا کر کسی غلط فیصلے سے بچالے تو اگلے طویل دورانیہ تک اس کا فائدہ محسوس ہوگا۔

اﷲ تعالی عمل کی توفیق دے۔ آمین