” العلم النور”
“ماں کی گود سے قبر کی آغوش تک علم حاصل کرو۔”
“علم حاصل کرنا ہرمسلمان مرد عورت پر فرض ہے۔”
یہ ایسے سنہرے الفاظ ہیں کہ جن کی گونج بچپن سے ہماری سماعتوں میں سنائی دے رہی ہیں ہر مادرِ علمی کی نقش و نگار کی زینت ہیں یہ قیمتی الفاظ، ہماری سماعتوں نے سنے تھےہماری نگاہوں نے دیکھے تھے ہماری زبانوں نے پڑھے تھے کہ
قسمتِ نوع بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں
اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں
ہر تعلیمی ادارے میں آویزاں ہیں یہ الفاظ، لیکن آج کی تاریخ میں وطنِ عزیز جن حالات کا آماج گاہ بنا ہوا ہےان حالات میں یہ سنہرے الفاظ کہیں کھو گئے ہیں اللہ رب العزت سورہ الزمر :۹ میں فرماتے ہیں! ” اے نبی ﷺ ان سے پوچھو! کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے کبھی یکساں ہو سکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں۔”
پھر ہم کیسے سوچ سکتے ہیں کہ جو تعلیم کے ساتھ اپنی زندگی کی راہ پر گامزن ہیں اور جو تعلیم سے دور ہیں وہ برابر ہیں جی بالکل جیسے رات اور دن برابر نہیں جیسے اندھا اور آنکھوں والا یکساں نہیں جیسے بولنے والا اور گونگا برابر نہیں تو پھر عالم اور جاہل ایک صف میں کیسے کھڑے ہو سکتے ہیں۔علم ایک ایسا چراغ ہے جو جہالت سے نورِ ہدایت کے سفرمیں زادِراہ کا کام کرتا ہے “علم” تو نورِ ہدایت ہے اور “جہالت” پستیوں میں ڈوبی اندھیری کھائی، صاحبِ شعور یہ بات جانتے ہیں کہ جب چراغ روشن ہوتے ہیں تو تاریکی کے بادل چھٹ جاتے ہیں اللہ رب العزت نے بنی نوع انسان کو نورِ ہدایت تھما کر نورِ علم سے نوازاہے۔علم ہی وہ بنیاد تھی کہ جس کی بنا پر آدم کو فرشتوں پر فضیلت عطا کی گئی نسلِ انسانیت کے نام رب العزت کے آخری پیغام (قرآن پاک) کا آغاز بھی “اقرا” سے ہوا ” پڑھو اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی، پڑھو! اور تمھارارب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا انسان کو وہ علم دیا جسےوہ نہ جانتا تھا” رب کعبہ نے تو قلم کو تھامنے کا حکم دیا اور ہماری نوجوان نسل نے قلم سے دوری کوجشن کی صورت میں منایا، آج کا طالب علم جو تعلیم کی اہمیت کو نہیں جانتا اسے حق نہیں کہ وہ تعلیمی اداروں کی زینت بنے کیونکہ جب انسان کفرانِ نعمت کرے تو نعمتوں کو زوال آ جاتا ہے بلندی سے پستیوں میں جا گرتا ہے نعمتوں پر شکرگزاری کا رویہ ہی نعمتوں کے دوام کا سبب بنتا ہے آج کا طالب علم یہ کیوں فراموش کر بیٹھا ہے کہ درجات کی بلندی علم کی بنیاد پر تھی سورہ مجادلہ :۱۱ میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں ” جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ ان کو بلند درجات عطا فرمائے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے” آج یہ قوم اور اس کی نوجوان نسل درجات کی بلندی سے نا بلد ہے وہ سستی کا شکار ہے جیسے شیطان نے اس کو چھو کر دیوانہ کر دیا ہو آج تعلیم سے ذیادہ انسان کو اپنے پیٹ کی فکر ہےآج روح کی غذا سے ذیادہ انسان کو جسم کی غذا کی فکر لا حق ہے اس جسم کو سنوارنے میں اپنی توانائیاں لگانے میں مصروفِ عمل ہے آج کا انسان اس جسم کو سنوارنے کے لئے کوشاں ہے کہ جس جسم کو منوں مٹی تلے دب جانا ہے جسے کیڑوں اور زمیں نے کھا جانا ہے جس وجود نے فنا ہو جانا ہے اور باقی نہیں رہنا آج صرف اس جسم کی فکر ہے روح جو باقی رہ جانی ہے جس کا رشتہ رب کی ذات سے جڑا ہے اس روح کی پرورش کی فکر سے یہ نوجوان نسل قاصر ہے آج ہم نے اللہ کا عطا کیا ہوا رزق صرف اشیاء خوردونوش کو ہی سمجھ لیا ہے ہم یہ فراموش کر گئے کہ یہ زندگی اور اس سے جڑی ہر چیز ہی اللہ کا عطا کردہ رزق ہے اور علم تو عطا کردہ رزق کی لسٹ میں سب سے بلندی پربراجمان ہے وہ بلندی جس بنا پر آدم کو فرشتوں نے سجدہ کیا اور ابلیس حکم عدولی کر کے راندہ قرار پایا۔علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جنگ میں قیدیوں کی رہائی کا فدیہ رسول اللہﷺ نے دس دس صحابہ کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا قرار دیا صحابہ اکرام جو دنیا میں بشارتِ خلد کے حقدار قرار پائے تھےان کی زندگیاں سادگی کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھیں کپڑوں کا ایک جوڑا پہنتے اور ایک دھوتے تھے مگر حصولِ علم کی جستجو میں کوشاں رہتے تھے سرورِ کائنات جن کے لیے اللہ رب العزت نے زمیں وآسماں کے تمام خزانے کھول دیئےوہ پیوند لگے کپڑے اور جوتوں کو خود گانٹھ کر پہننا پسند فرماتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ دنیا اور یہاں کے عیش و آرام فانی ہیں باقی رہ جانے والی تو آخرت ہے ۔
لمحہ فکریہ ہے کہ اس وطنِ عزیز کے مستقبل کی بھاگ ڈور کل کن ہاتھوں میں جانےوالی ہے۔یہ زندگی بہت قیمتی ہے اور رب کی عطا کردہ نعمتوں میں سب سے اہم نعمت جو ایک بار چلی گئی تو دوبارہ نہیں ملے گی روزِ محشر اس نعمت کے بارے میں سوال ہو گاکہ اےابنِ آدم جوانی کہاں گرانی کی کن کاموں میں گزاری ؟ کیا جواب دیں گے کہ تعلیم سے دوری پر جشن منا کر گزاری۔موت کا ایک دن مقرر ہے وہ تو مضبوط قلعوں میں بھی انسان کو آ دبوچے گی پھرموت کا اتنا خوف کہ تعلیمی ادارے بند اور باقی ساری دنیا میں چہل پہل۔آج تعلیمی ادارے بند مگر تفریح کے لیے پارک بھرے ہوئے ہیں آج مہنگائی کا رونا رونے والی قوم چھوٹے بچوں کے ساتھ شاپنگ مالز اور ریسٹورنٹس میں موجود ہے کیا ہے نا چھٹیوں سے لطف اندوز ہوا جا رہا ہے۔میں سوچتی ہوں انسان کا ایک ایک لمحہ قمتی ہے ایک ایک لمحے کا سوال ربِ کعبہ کریں گے اور ہماری آنے والی نسل نے اپنا پورا تعلیمی سال ضائع کر دیا اور کوئی فکر نہیں ۔آج کی نوجوان نسل تدبر نہیں کر سکتی کیونکہ اس نےایسا نصاب پڑھا ہی نہیں اسےمعرفت ہی نہیں کہ اس نے اس ایک سال میں کیا کھویا ہے وہ مزے میں ہے آج ضروت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے نصاب پر غورو فکر کریں کہ ایسا کیا سکھائیں کہ اس نسل کاغفلت میں سویا ہوا ضمیر جاگ اٹھے یہ اپنی خودی کو پہچان سکے یہ غلط کے خلاف آواز اٹھا سکے اور صحیح کا ساتھ نبھا سکے۔زیادہ سوچنے کی بات نہیں ہے کیونکہ چودہ سو سال پہلے اللہ رب العزت نے محمد رسول اللہ ﷺ کے توسط سے ہمیں ایسا مکمل نصاب دیاکہ دنیا میں کوئی اسے چیلنج نہیں کر سکتا آئیں اس نصاب کو تھام لیں جو دراصل درسِ انقلاب ہے قرآن کا نصاب ہی جہاں میں بے مثال ہے تبدیلی صرف اور صرف قرآن کی تعلیمات میں ہے یہ وہ نصاب ہے جس نے پستیوں میں گری قوموں کو بلندیاں عطا کیں ۔اگر آج ہم دنیا میں بحیثیت قوم بلندی،عزت اور وقار چاہتے ہیں تو قرآن کے نصاب کو اپنی زندگیوں میں شامل کر لیں اللہ ہماری قوم کی تقدیر بدل دے گا۔اللہ پاک ہمیں قرآن کے نصاب کو اپنی زندگیوں میں شامل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین