اسلام میں عورتوں کا میراث میں حصہ ۔

0
32

 اسلام میں عورتوں کا میراث میں حصہ ۔

میراث کیسے کہتے ہیں؟ وہ مال، یا کوئی بھی سامان، جو کسی کو ترکے میں ملے، خاص کر اپنے اجداد سے، یا (۲) وہ مال یا کوئی بھی سامان جو کوئی شخص اپنے پیچھے چھوڑ جائے، دونوں کو ”ترکہ اورمیراث” کہتے ہیں۔

   آئیے! پہلے عورتوں کی میراث اور اُن پر ہونے والے اعتراض کا جائزہ لیتے ہیں ، فرانس کا ایک مستشرق ہے، جس کا نام  گیسٹن ویٹ ہے، اس نے لکھا ہے کہ ’’اسلام میں عورتوں کو ذلیل و حقیر رکھا گیا ہے؛ یہاں تک کہ میراث میں بھی اس کا حصہ مرد سے آدھا ہے۔‘‘

                جواب:  اس اعتراض کا تجزیہ کیجیے کہ کیا یہ الزام درست ہے؟ کیا ساری عورتوں کو اسلام نے مردوں کے مقابلے میں آدھا دیا ہے، یا چند عورتوں کو؟

                ظاہر ہے کہ ساری عورتوں کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہے، جیساکہ کتاب وسنت کے ’’ابواب الفرائض‘‘ میں تفصیل موجود ہے اور چند عورتوں کو لے کر اعتراض ہے تو اتنا بڑا پروپیگنڈہ کیوں ؟ پورے اسلام کو بدنام کیوں کیا جارہا ہے؟ اگر غور کیجیے تو معاملہ اس کے بالکل برعکس نظر آئے گا، وہ یہ کہ ’’اسلام نے مردوں سے دوگنا عورتوں کو دیا‘‘ ہے، میراث کی سب سے مشہور کتاب اٹھائیے، اس میں ’’اصحاب فرائض‘‘ کو دیکھیے یعنی ان لوگوں کو جن کا ترکہ قرآن وسنت میں مذکور ہے، وہ کل بارہ افراد ہیں ؛ جن میں آٹھ عورتیں ہیں اور مرد صرف چار ہیں ، عورتوں میں (۱) بیوی، (۲) بیٹی، (۳) پوتی، (۴) حقیقی بہن، (۵) علاتی بہن، (۶) اخیافی بہن، (۷) ماں ، (۸) دادی ہے اور مردوں میں (۱) باپ، (۲) دادا، (۳) اخیافی بھائی، (۴) شوہر ہے۔

                گویا اسلام نے عورتوں کی زیادہ تعداد کو ترکہ دیا ہے، یعنی حصہ پانے والی عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں دوگنی ہے۔

                یہاں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مردوں کو اگر دوگنا دیاگیا ہے تو یہ اس وجہ سے معقول ہے کہ ان کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں آدھی ہے تو دوگنا ملنا ہی چاہیے، تبھی تو دونوں صنفوں میں برابری ہوگی! اب یہ کہنا کہ عورتوں کو اسلام نے ذلیل رکھا ہے بالکل غلط ہوگا؛ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اسلام نے عدل کیا ہے عورتوں کو عزت دی ہے، دوسرے مذاہب میں عورتوں کو ترکہ سے بالکل محروم رکھاگیا ہے۔