نظم کیا ہے؟
اس سوال کا مدعا یہ معلوم کرنا نہیں ہے کہ وہ چیز کیا ہے جسے نظم (یعنی منظوم کلام) کہتے ہیں۔ یعنی اس سوال کا مقصد یہ نہیں ہے کہ نظم کی وجودیات سے بحث کی جائے۔ نظم با معنی ہوتی ہے کہ نہیں ؟ نظم کے معنی اس کے اندر ہوتے ہیں یا باہر؟ نظم کے موضوع کو اس کے معنی کہہ سکتے ہیں کہ نہیں؟ نظم کے ذریعہ ہمیں علم حاصل ہوتا ہے یا تجربہ؟ اگر تجربہ، تو اس تجربے کو کسی طرح کا علم (یعنی ایسی معلومات جس کی روشنی میں عام احکامات لگائے جا سکیں) کیوں نہیں کہہ سکتے؟ اگر نہیں، تو کیا نظم میں جو کچھ بیان ہوتا ہے اس کا سچ ہونا بھی ضروری نہیں؟ اور اگر نہیں تو پھر نظم کے صحیح پن (Validity) کے لیے ہمارے پاس کیا دلائل ہیں ؟ پھر نظم میں جو بات بیان ہوتی ہے کیا وہ بات اور نظم کا لفظی بیان ایک ہی حکم رکھتے ہیں؟ وغیرہ۔
میں یہ مان کر چلتا ہوں کہ بعض بنیادی باتوں پر ہم سب کا اتفاق ہے۔ مثلاً ہم سب تسلیم کرتے ہیں کہ اقبال کا’’مرثیۂ داغ‘‘ مرثیہ ہے اور نظم بھی ہے۔ لیکن یہ اس طرح کا مرثیہ نہیں ہے جس طرح کا مرثیہ مثلاً میر انیس لکھتے تھے۔ جس سوال کے جواب پر ہمارا اتفاق شاید نہ ہو، وہ یہ ہے کہ اگر ’’مرثیۂ داغ‘‘ از اقبال، اور’’درد سے میرے ہے تجھکو بےقراری ہائے ہائے‘‘ از غالب دونوں مرثیے ہیں تو کیا یہ دونوں ایک ہی طرح کی نظم بھی ہیں یا نہیں؟ اس طرح اس سوال کے جواب پر بھی اتفاق شاید نہ ہو کہ اقبال کا ’’مرثیۂ داغ‘‘ مرثیہ ہے اور نظم بھی ہے، تو کیا میر انیس کے مرثیے بھی نظم ہیں؟ اسی طرح ہم سب تسلیم کرتے ہیں کہ سنائی کے اتباع میں لکھی ہوئی اقبال کی تخلیق (سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا) نظم ہے۔
لیکن جس سوال کے جواب پر اتفاق شاید نہ ہو، وہ یہ ہے کہ اگر یہ نظم سنائی کے قصیدے کے طرز پر لکھی گئی ہے تو اسے قصیدہ کیوں نہ کہا جائے؟ اور اگر ترکی، ایرانی طرز پر ایک طویل طنزیہ شہر آشوب لکھ کر سودا نے اسے ’’قصیدہ درتضحیک روزگار‘‘ کا نام دے دیا تو کیا یہ ضروری ہے کہ ہم بھی اس کو قصیدہ کہیں؟ یا اگر فرض کیجیے کہ ہم اسے قصیدہ نہ کہیں، شہرآشوب کہیں، تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ شہر آشوب نظم ہے اور قصیدہ نظم نہیں ہے، صرف قصیدہ ہے؟
لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ آیا کسی تحریر کی قسمیات (Typology) کا دارومدار شاعر کے عندیے پر ہے؟ یعنی اگر سودا نے اپنی ایک منظوم تحریر کو قصیدے کا نام دیا تو کیا ہم بھی اسے قصیدہ کہنے پر مجبور ہیں؟ اور اگر اقبال نے اپنی ایک منظوم تحریر کو قصیدے کا نام نہیں دیا تو کیا ہم بھی اس بات پر مجبور ہیں کہ ہم اس کو قصیدہ نہ کہیں، چاہے اس تحریر میں قصیدے کے معروف عناصر موجود ہوں؟
اگر ایسا ہے تو ہم اس بات پر مجبور ہیں کہ اقبال کی چار مصرعے والی ان اردو فارسی نظموں کو جو مفاعیلن مفاعیلن فعولن کے وزن پر ہیں، رباعی کہیں، کیونکہ اقبال نے انہیں رباعی ہی کہا ہے۔ اسی طرح ہم اس بات پر بھی مجبور ہیں کہ حالی کے مرثیۂ دہلی کو شہرآشوب نہ کہیں بلکہ غزل کہیں کیونکہ انہوں نے اسے شہرآشوب کا عنوان نہیں دیا ہے اور یہ منظومہ ان کے کلیات غزلیات میں درج ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ شاعر کو اپنے کلام کی قسمیات متعین کرنے کا کچھ حق تو ہوتا ہے، لیکن اسے اس قدر حق ہم نہیں دے سکتے کہ وہ مروج یا مقبول اقسا م کو من مانے ناموں سے پکارے اور ہر بار ہمیں اس درد سر میں مبتلا ہونا پڑے کہ اگر اقسام کا تعین شاعر ہی کرتا ہے تو اقسام کی ضرور ت کیا ہے؟ جس شاعر کا جو جی چاہے کرے، اپنی ایک تخلیق کو قصیدہ کہے اور اسی طرح کی دوسری تخلیق کو مثنوی کہے، تیسری کو غزل کہہ دے۔
لیکن یہاں یہ مشکل ہے کہ ہر قسم کے شعر کے ساتھ مختلف طرح کی توقعات وابستہ ہو گئی ہیں اور قاری ان توقعات کی روشنی میں ہی ہر تخلیق کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔ احتشام صاحب مرحوم نے اپنی ایک یاس آلودغزل کو اسی لیے ’’بہ یاد ویت نام‘‘ کا عنوان دے دیا تھا کہ قاری اسے ان توقعات کی روشنی میں نہ پڑھے جو غزل کے ساتھ وابستہ ہیں اور جن کی روشنی میں وہ تخلیق غیر ترقی پسند ٹھہر سکتی تھی۔
اقسام شعر کے ساتھ جو توقعات وابستہ ہو گئی ہیں ان کی بنیاد کچھ تو خود ان اقسام پر ہے اور کچھ ان اقسام کی وضاحت کرنے والوں پر۔ یعنی جب بے ربط لیکن ہم قافیہ اشعار پر مشتمل ایسی بہت سی تحریریں سامنے آئیں جن میں حسن وعشق کا تذکرہ تھا اور ان کو غزل کا نام دیا جاتا رہا، تو ہم نے یہ توقع وابستہ کرلی کہ غزل وہ تحریر ہے جس میں عشقیہ مضامین والے ہم قافیہ لیکن بے ربط اشعار ہوتے ہیں۔ دوسری طرف فارسی اقسام شعر کی وضاحت کرنے والوں نے بعض بلند آہنگ، تعریفی یا تنقیصی یا اخلاقی مربوط اشعار والی نسبتاً طویل تحریروں کو قصیدے کا نام دے دیا، حالانکہ عربی میں (جہاں سے یہ لفظ اور اصطلاح ماخوذ ہے) قصیدہ نا م کی کوئی صنف سخن ہے ہی نہیں۔ لیکن چونکہ اقسام شعر پر لکھنے والوں نے ایک خاص طرح کی نظموں کو قصیدہ کہہ دیا، اس لیے لفظ قصیدہ سے ایک خاص طرح کی توقعات وابستہ ہو گئیں۔
مشکل تب پیدا ہوتی ہے جب شاعر، یا اقسام شعر پر لکھنے والا کوئی شخص، کسی رائج قسم شعر پر وہ توقعات عائد کرنا چاہتا ہے جو اس سے اب تک وابستہ نہ تھیں۔ اگر وہ توقعات پچھلی رائج توقعات سے بالکل متغائر ہوں تو انتشار اور افراتفری اور غلط فہمی پیدا ہوتی ہے اور اگر وہ توقعات پچھلی رائج توقعات سے کسی نہ کسی طرح کی ہم آہنگی رکھتی ہوں تو آہستہ آہستہ نئی توقعات رائج ہو جاتی ہیں۔