.دو دوستوں کا سبق آموز واقعہ
ایک دفعہ دو بہت گہرے دوست صحرا میں سفر کر رھےتھے ۔ ۔ ۔ راستے میں باتیں کرتے کرتے دونوں میں بحث ھو گئی اور بات اتنی بڑھی کہ ایک دوست نے دوسرےدوست کے منہ پر تھپڑ دے مارا تھپڑ کھانے والا دوست بہت دکھی ھوا مگر کچھ بولے بغیر اس نے ریت پر لکھا : آج میرے سب سے اچھے اور گہرے دوست نے میرے منہ پر تھپڑ مارا .. چلتے چلتے ان کو ایک جھیل نظر آئی۔ ۔
دونوں نے نہانے کا ارادہ ادہ کیا ۔ ۔ ۔ اچانک جس دوست کو تھپڑ پڑا تھا وہ جھیل کے بیچ دلدلی حصہ میں پھنس گیا مگر جس دوست نے تھپڑ مارا تھا اس نے اسے بچا لیا تب بجنے والے دوست نے پتھر پہ لکھا : آج میرے سب سے اچھے اور گہرے دوست نے میری
زندگی بچالی …. یہ دیکھ کر جس دوست نے تھپڑ مارا تھا اور بعد میں جان بچائی
اس نے پوچھا : جب میں نے تم کو دکھ دیا تو تم نے ریت پر لکھا تھا اور جب جان بچائی تو تم نے پتھر پہ لکھا .. کیوں ..؟
پہلے دوست نے جواب دیا :
جب کوئی آپ کو دکھی کرے یا تکلیف دے تو ھمیشہ اس کی وہ بات ریت پر لکھو تا کہ در گذر کی ہوا اسے مٹا دے لیکن جب بھی کوئی آپ کے ساتھ بھلائی کرے تو ہمیشہ اس کی اچھائی پتھر پہ نقش کرو تا کہ کوئی بھی اسے مٹا نہ سکے
جیسا کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم عفو و درگزر کے سراپا نمونہ تھے جیسا کہ ام المومنین حضرت عا ئشہ صدیقہ ؓ9برس تک آپ کی صحبت بارحمت میں رہیں وہ ارشاد فرماتی ہیں ’’ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ شریفہ کسی کو برا بھلا کہنے کی نہیں تھی ،آپ برائی کے بدلے میں کسی کیساتھ برائی نہیں کرتے بلکہ اسے معاف فرمادیتے تھے ۔آپ کی زبان مبارک سے کبھی بھی کوئی غلط الفاظ نہیں نکالے ۔آپ گناہو ں کی باتوں سے ہمیشہ کوسوں دور رہے ۔آپ اپنی ذات کیلئے کسی سے انتقام نہیں لیا۔غلام عورت،بچہ یا خادم یہاں تک کہ کسی جانور کوبھی کبھی نہیں مارالیکن اگر کوئی حدود اللہ کی بے حرمتی کرتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے برداشت نہیں کرتے اور اس کا انتقام لیتے۔‘‘ ( مسلم ) ۔