اصناف شاعری۔ غزل

0
573
urdu birth
urdu birth
اصناف شاعری۔
غزل۔
غزل اردو شاعری کی سب سے مقبول صنف سخن ہے اور پروفیسر رشید احمد صدیقی نے اسے بجا طور پر اردو شاعری کی آبرو کہاں ہے اردو میں تنقید کا باقاعدہ آغاز ہوا اب تک غزل طرح طرح کے اعتراضات کا نشانہ بنتی رہی لیکن اس کی مقبولیت کم ہونے کے بجائے برابر بڑھتی ہی گئی اور یہ ثابت ہوگیا کہ غزل میں زمانے کے ساتھ بدلنے ، ہر ضرورت کو پورا کرنے اور ہر طرح کے مضمون کو ادا کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور اب تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس صنف سخن کو کبھی زوال نہ ہوگا۔
غزل عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کی باتیں کرنا اس صنف کو غزل کا نام اسی لیے دیا گیا تھا کہ حسن و عشق ہی اس کا موضوع ہوتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے موضوعات میں وسعت پیدا ہوتی گئی اور آج غزل میں ہر طرح کے مضمون کو پیش کرنے کی گنجائش ہے غزل کی ابتدا عربی میں ہوئی وہاں سے یہ ایران پہنچے اور فارسی میں اس نے بہت ترقی کی فارسی ادب کے راستے یہ اردو میں داخل ہوئی اور خاص و عام میں مقبول ہو گئی۔
غزل کی تعریف یا خصوصیات-
غزل کے تمام مصرعے ایک ہی وزن اور ایک ہی بحر میں ہوتے ہیں غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے اور اس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ یا ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتے ہیں۔ بعض غزلوں میں قافیے کے ساتھ ردیف بھی ہوتی ہے بعض میں صرف قافیہ ہوتا ہے غزل کا آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے مقطع  کہلاتا ہے۔ مثلا۔
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الہی یہ ماجرا کیا ہے
ہم نے مانا کہ کچھ نہیں غالب
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
غزل کی دیگر اہم خصوصیات یہ ہیں کہ غزل کا ہر شعر اپنے معنی الگ دیتا ہے ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو یا دو سے زیادہ شعر مل کر معنی دیتے ہیں تو انھیں قطعہ بند کہا جاتا ہے مثلا میر کے یہ دو شعر۔
کل پاؤں ایک کاسہ سر پر جو آگیا
یکسر وہ استخوان شکستہ سے چور تھا۔
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسو کا سر پر غرور تھا۔
غزل ایک غنائی صنف شاعری ہے اور ترنم و موسیقی سے اس کا گہرا تعلق ہے یہی سبب ہے کہ مشاعرے بہت مقبول رہے ہیں اور ان میں غزلوں کی فرمائش کی جاتی رہی ہے ۔