ممبئی کے آزاد میدان میں تحفظِ شریعت اور طلاق بل کے خلاف ایک عظیم الشان احتجاجی

0
2370
Triple Talaq India
Triple Talaq India

ہندوستان ایک سیکولر جمہوری ملک ہے۔ہر مذہب کے ماننے والے کو یہاں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔مسلمان ہندوستان میں دوسری سب سے بڑی اکثریت ہیں،اس تناظر میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ حکومتِ ہند ایک بل” تحفظِ مسلم خواتین 2017 “کے نام سےلائی ہے جسے جلد بازی میں لوک سبھا  کے اندر پاس بھی کر دیا گیا ۔یہ ایک المیہ ہے کہ مذہبی قیادت، علماء،ماہرینِ قانون یا مسلم خواتین کی کسی جماعت و تنظیم سے رابطہ کئے بغیر اس بل کا مسودہ تیا کر لیا گیا۔

یہ بل مکمل طور پر خامیوں سے پُر ہے، اسمیں قانونی نقص ہے،دستورِ ہند اور 22/اگست کے عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کےبھی خلاف ہے۔ اس بل میں زیادہ زور طلاق کو نا قابل سماعت و ضمانت بنا کر اسے بڑا جرم  قرار دینے پرہے۔عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق فوری طلاق نافذالعمل نہیں ہے لیکن یہ بل اسے قابلِ سزا جرم قرار دیتا ہے۔اسوجہ سے یہ بل مکمل طور پر عورتوں اور بچوں کے حقوق کے خلاف بھی ہے اور سماج مخالف بھی ۔

عزت مآب صدر جمہوریہ ہند نے پارلمنٹ  کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ مسلم خواتین صدیوں سے سیاسی مفاد کے زنجیر وں سے جکڑی ہوئی ہیں۔ اس بیان نے ملک کے بیس کروڑ مسلمانوں کے جذبات کوبُری طرح مجروح کیا ہے۔جبکہ یہ ایک تاریخی سچائی ہے کہ اسلام ہی وہ پہلا مذہب ہے جس نے عورتوں کو عزت،عظمت اور حقوق عطا ء کیا۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ نے مسلم پر سنل لا کی حمایت میں پانچ کروڑ دستخط لا کمیشن آف انڈیا کو بھیجے ہیں جسمیں دو کروڑ اسی لاکھ عورتوں کے دستخط شامل ہیں۔اب تک ایک کروڑ سے زائد مسلم خواتین ملک کے طول و عرض میں اس بل کے خلاف بڑے شہروں اور چھوٹے قصبوں کے اندر صدائے احتجاج بلند کر چکی ہیں۔

اسی سلسلے میں خواتینِ اسلام کی ایک عظیم الشان اور رتاریخ سازخاموش احتجاجی ریلی ممبئی کے آزاد میدان میں 31/مارچ کو دو سے چار بجے کے درمیان منعقد ہونے جا رہی ہے۔ اس ریلی سے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی خواتین ممبران اور مسلم سماج کے ہر مکاتبِ فکر اور مسالک کی نمائندہ خواتین خطاب کریں گی.

احتجاجی ریلی متحدہ طور پر مندرجہ ذیل مطالبہ اور بیان جاری کرے گی:
1۔حکومت کو مسلم خواتین بل 2017(طلاقِ ثلاثہ بل ) واپس لینا چاہئے۔
2۔ مسلم خواتین مسلم پرسنل لا میں کوئی تبدیلی نہیں چاہتی ہیں۔
3۔مسلم خواتین یکساں سول کوڈ کو متعارف کرانے کی حکومت کی تمام اقدامات کو مسترد کرتی ہیں۔
4۔ننانوے فیصد سے زائد مسلم خواتین مسلم پر سنل لا بورڈ کی حمایت کرتی ہیں اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت پر مکمل اعتماد اور بھروسہ رکھتی ہیں۔