.دورجدیدمیں عصری تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم کی ضرورت

0
51

.دورجدیدمیں عصری تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم کی ضرورت

  دورجدیدمیں تعلیم کی اہمیت وضرورت سے کسی فردواحد کو مفرنہیں ، اچھی اورمعیاری تعلیم سے اپنے بچوں کو آراستہ کرنا فی زمانہ بے حدضروری ہے؛ کیونکہ بچے کسی بھی سماج اورمعاشرہ کاسرمایہ اورتابناک مستقبل کی تعمیر کے لیے ضروری اساس ہوتے ہیں ، بچوں کے ذہنی خدوخال نہایت ہی حساس اور کورے کاغذ کی طرح ہوتے ہیں ،ان کی بہتر، نشوونماء اورتربیت ایک روشن مستقبل کے لیے بنیادی فراہمی کاکام کرتی ہے،بچوں کے تعلق سے کسی بھی موقع پر تساہل یاکسی بھی زاویہ سے بے اعتناعی ملک وملت کے لیے کسی المیہ سے کم نہیں ؛کیونکہ جو قوم تعلیمی پسماندگی کا شکار ہوجائے اور اپنی فکری وتہذیبی نہج سے دست بردارہوجائے، تواس قوم کو زمانہ کے ساتھ چلنے میں قدم قدم پر ہزیمت کاسامناکرناپڑتاہے، ان کی نسلوں کو اس قعرمذلت سے باہرنکلنے اورامیدافزاشعوروآگہی تک رسائی حاصل کرنے میں زمانہ لگ جاتا ہے، یوں بھی عالمی تباہی ومعاشی بدحالی کے تسلسل میں ہمیں فی زمانہ اپنی نسلِ نوکی بہترپرورش اوردینی حمیت کی پاسداری کے ساتھ زندہ رکھنے کے لیے آئیڈیل تعلیم گاہوں کا سہاراچاہیے اوریہ اسی صورت میں ممکن ہوپائے گا،جب ہم اسکول،کالج اورعصری تعلیم گاہ کے انتخاب میں بہت ہی محتاط قدم کے ساتھ آگے بڑھیں گے،  مسلمانوں پر ایک دور ایسا بھی گزاراہے،جب اقوام عالم کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں تھی،لوگ دنیاکے کونہ کونہ سے علم وادب کی چاہ میں مسلم حکماء، اسکالرس اورمفکرین کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کرنے کے لیے دشوارگزارراستوں کا سفرطے کرتے تھے اور تعلیم کے حصول کے لیے تمام طرح کی صعوبتیں بھی برداشت کرتے تھے، آج بھی جدیدمیڈیکل سائنس، حساب (میتھ میٹکس )شہری ہوابازی،جہازرانی اوردیگر بہت سے میدان میں استعمال ہونے والے بنیادی اصول وفروع مسلم مفکرین کی مرہون منت ہیں ؛لیکن اب وہ مبادیات اورفروعات ہماری نظروں سے اوجھل ہیں ؛ کیونکہ وہاں تک ہماری رسائی بہت ہی محدودہوچکی ہے،اگرتھوڑی بہت ہے بھی توہماری نسلیں ان اصولوں ،فلسفوں اورقواعد کے بارے میں اس لیے کچھ نہیں جان پاتی کہ اب ان کے نام انگریزی لاحقہ کے ساتھ متعارف کردیئے گئے ہیں ، کہاجاتاہے کہ یہ وہ دورتھا جب تعلیم وحکمت میں ان بزرگوں کا طوطی بول رہاتھا، پھرآپسی چپقلش،اپنوں کی بے رخی اوررب ذوالجلال کی عطاکردہ نعمت کی ناقدری کی وجہ سے اس عظیم دولت سے یکلخت ہم دورکردیئے گئے  اورآج ہماری یہ حالت ہوچکی ہے کہ ہم اپنی کھوئی ہوئی اس لازوال نعمت کے عشرعشیرکے بھی لائق نہیں ، الامان الحفیظ ۔

              موجودہ وقت میں ایک اہم مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ بغیر کسی تحقیق کے ہم اپنے بچے کو غیرمعیاری اسکول کے حوالہ کردیتے ہیں ،پھرفکرمعاش اوردیگردنیاوی جھمیلوں میں کچھ اس قدر مشغول ہوجاتے ہیں کہ پلٹ کر کوئی خبرنہیں لیتے، بس صرف بچوں کو اس کی صلاحیت سے زیادہ بوجھ تلے جکڑدیتے ہیں اورخالص انگلش کے چند الفاظ بول لینے کو تعلیمی معراج تصورکربیٹھتے ہیں ،اگریہی طالب علم کسی مقابلہ وغیرہ میں خاطرخواہ نمبرات نہیں لاپاتاہے، توطرح طرح کے طعنہ سے اس ناپختہ ذہن کو گرزرنا پڑتاہے جس کا نتیجہ کبھی کبھی اس قدربھیانک صورت اختیارکرلیتی ہے کہ بچہ زندگی کی قیمتی ڈوراپنی سانس تک کو ختم کرنے پر آمادہ ہوجاتاہے،ایسے لاتعدادواقعات ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں اور پھر ہم ہائے افسوس کاماتم کرنے لگتے ہیں ۔عصری تعلیم وقت کی ضرورت ہے،اگریوں کہاجائے کہ ناگزیرہے توکسی طورغلط نہ ہوگا، اکیسویں صدی کے بدلتے ہوئے حالات میں عصری تعلیم سے محرومی جہالت کے زمرہ میں ہی تصورکی جائے گی؛لیکن اگر یہ تعلیم دین وایمان کے سودے کے ساتھ ہوتوہمارے لیے بہت بڑی حرماں نصیبی ہوگی جس کی بھرپائی کا ہمارے پاس کوئی موقع میسرنہ ہوگا؛ کیونکہ جب سادہ دلوں اورکورے اذہان پر ایمانیات اوروحدانیت سے بیزاری کی لکیریں کھینچ دی جاتی ہیں تواس کو محوکرپانا بے حدمشکل مرحلہ ہوتاہے؛ اس لیے ملت کے بہی خواہ اورسماجی کارکن کوآگے آناچاہیے اوراپنے زیراثرعلاقوں میں بچوں کے سرپرست کواس بات کی رہنمائی کرنی چاہیے کہ عصری تعلیم کے لیے ہم کس طرح کے ادارہ کاانتخاب کریں ، اسلامی مزاج میں علوم کے حصول کی تحدیدنہیں ہے؛ کیونکہ نبی پاک ﷺ کی سیرت طیبہ اورآپ کے بیشمار اقوال وافکارسے یہ معلوم ہوتاہے کہ آپ ﷺ نے غیر مسلم قیدی کو جرمانے کے عوض عبرانی زبان اوراس وقت جس زبان کی ضرورت تھی صحابہ کرامؓ کو سکھانے کے لیے متعین کیاتھا، اس طرح کے اقوال سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ اسلام میں تعلیم کے حصول میں کسی طرح کی کوئی بندش نہیں ہے، ہاں اتنی بات ضرورہے کہ اس زبان وعلم کی رومیں بہہ کر اپنے ایمان کاسوداکربیٹھنے کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے، ہمارے لیے ضروری ہے کہ موجودہ دنیاوی تقاضے کو سامنے رکھتے ہوئے جس علم کی بھی ضرورت ہواس کے حصول کے لیے ہرممکن کوشش کریں ، اس کے حصول میں کسی طوربھی بے اعتناعی کا ثبوت نہ دیں ؛ بلکہ ہر لمحہ بہترسے بہترکرنے کی کوشش کریں لیکن پھربات وہیں آجاتی ہے کہ ایمان کے سودے کے ساتھ کسی طرح کی تعلیم ہماری عاقبت کی خرابی کاباعث نہ بنے؛ تاکہ ہمیں روزمحشرشرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے؛ کیونکہ بطورگارجین ہمیں روزقیامت اپنی اولاداورکنبہ کے حوالہ سے بھی سوالات کا سامنا کرنا ہے، یادرکھیں ترقی کے مواقع خودنہیں آتے؛ بلکہ انھیں حاصل کیا جاتاہے اوراس کے لیے تعلیم سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا،ہم تعلیم کے ہتھیاڑسے ہی درپیش چیلنجوں کا نہ صرف کامیابی سے مقابلہ کرسکتے ہیں ؛بلکہ خودکو پسماندگی کی دلدل سے باہر نکال کرقوم وملت کو عزت ووقار کی جگہ پر کھڑاکرسکتے ہیں ۔