’یہ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی‘: آئن سٹائن کا خط جس نے ایٹم بم کی ہلاکت خیز ایجاد کی بنیاد رکھی

0
45

دو اگست 1939 کو البرٹ آئن سٹائن نے امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کو ایک خط لکھا۔ ان کے خط کا نتیجہ مین ہیٹن پروجیکٹ کی صورت میں نکلا جو تاریخ کی سب سے اہم اور تباہ کن ایجادات یعنی ایٹم بم بنانے کے لیے بنایا گیا پروجیکٹ تھا۔ سنہ 2023 کی بلاک بسٹر فلم اوپن ہائیمر میں ایٹمی طاقت کے مہلک استعمال کا ڈرامائی سکرپٹ سائنس فکشن سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکتا تھا اگر دو اگست 1939 کو دو صفحات پر مشتمل یہ خط کبھی نہ لکھا گیا ہوتا۔ امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کے نام لکھے گئے ایک خط میں کہا گیا تھا کہ ’جوہری طبیعیات میں حالیہ تحقیق سے یہ ممکن ہوا ہے کہ یورینیم کو توانائی کا ایک نیا اور اہم ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔‘ انھوں نے لکھا تھا کہ ’اس توانائی کو انتہائی طاقتور بموں کی تشکیل کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘

مقبوضہ چیکوسلواکیہ میں یورینیم کی فروخت روکنے کے جرمنی کے فیصلے پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے یہ خط دو ارب ڈالر کے انتہائی خفیہ تحقیقی پروگرام ’مین ہیٹن پروجیکٹ‘ کے لیے محرک تھا جو جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں جرمنی کو شکست دینے کی دوڑ کا مرکز تھا۔ طبیعیات دان رابرٹ اوپن ہائیمر کی سربراہی میں تین سالہ منصوبہ امریکہ کو جوہری دوڑ میں لے گیا اور تاریخ کی سب سے اہم اور تباہ کن ایجادات میں سے ایک ایٹم بم کا سبب بنا۔ 10 ستمبر 2024 کو آئن سٹائن کا خط کرسٹیز نیو یارک میں نیلام کیا جائے گا اور توقع ہے کہ اس کی قیمت 40 لاکھ ڈالر سے زائد ہو گی۔

اس خط کے دو ورژن تیار کیے گئے تھے۔ ایک مختصر ورژن جسے کرسٹیز نے نیلام کرنا ہے اور ایک زیادہ تفصیلی ورژن جو وائٹ ہاؤس کو پہنچایا گیا تھا اور اب نیو یارک میں فرینکلن ڈی روزویلٹ لائبریری کے مستقل مجموعے میں شامل ہے۔

کرسٹیز یونیورسٹی میں کتابوں اور خطوط کے سینیئر ماہر پیٹر کلارنیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کئی حوالوں سے یہ خط سائنس، ٹیکنالوجی اور انسانیت کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ پہلا موقع تھا جب امریکی حکومت بڑی سائنسی تحقیق میں براہ راست مالی طور پر شامل ہوئی تھی۔‘

انھوں نے کہا کہ اس خط میں امریکہ کو ٹیکنالوجی میں ہونے والی تبدیلیوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی اجازت دی گئی۔

سوانسی یونیورسٹی میں شعبہ سیاست، فلسفہ اور بین الاقوامی تعلقات کے پروگرام ڈائریکٹر اور امریکی اور نیوکلیئر ہسٹری کے لیکچرر اور محقق ڈاکٹر برائن ولکوک بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایٹم بم کی ابتدا کے بارے میں زیادہ تر تاریخی کہانیاں اس خط پر بحث سے شروع ہوتی ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’خط کے مندرجات نے صدر روزویلٹ کی براہ راست کارروائی میں مرکزی کردار ادا کیا۔ یہ خط روزویلٹ کو جوہری تحقیق شروع کرنے پر مجبور کرنے میں’اہم‘ وجہ ثابت ہوا۔‘

ایوارڈ یافتہ فلم اوپن ہائیمر جو مین ہیٹن پروجیکٹ کی کہانی پر مبنی ہے۔ اس میں اوپن ہائیمر اور طبیعیات دان ارنسٹ لارنس کے درمیان ایک منظر میں اس خط کا حوالہ دیا گیا ہے۔ توقع ہے کہ اس کی وجہ سے نیلامی میں اضافہ ہو گا۔

کلارنیٹ کا کہنا ہے کہ ’یہ (خط) ایک ایسی چیز ہے جو 1945 کے بعد سے مقبول ثقافت کا حصہ رہا ہے، لہٰذا یہ پہلے سے ہی اہم ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ اوپن ہائیمر فلم نے اسے اب ایک نئی نسل تک پہنچایا ہے۔‘

کلارنیٹ نے آئن سٹائن کو’ایک افسانوی کردار‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔ اوپن ہائیمر میں وہ ایک کیمیو کردار کی طرح ہیں جس کا ہم بے صبری سے انتظار کرتے ہیں ان کی شناخت صرف اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب ان کی ٹوپی اڑ جاتی ہے اور ان کے اڑے اڑے سفید بال بے نقاب ہوتے ہیں۔

آئن سٹائن نے خود کو اس منصوبے سے دور رکھا اور ہمیشہ اصرار کیا کہ جوہری توانائی کے اخراج میں ان کا حصہ ’بالکل بالواسطہ‘ تھا۔

اگرچہ آئن سٹائن کے (E = mc2) نے جوہری رد عمل میں خارج ہونے والی توانائی کی وضاحت کی اور اس کے مذموم اطلاق کی راہ ہموار کی لیکن ایٹم بم بنانے میں ان کے کردار کو شاید فلم میں بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے۔

کلارنیٹ کہتے ہیں کہ اختتامی منظر میں اوپن ہائیمر اور آئن سٹائن کے درمیان یہ مکالمہ کہ (اوپن ہائیمر: ’جب میں آپ کے پاس انکیلکولیشنز کے ساتھ آیا تو ہم نے سوچا کہ ہم ایک چین ری ایکشن شروع کر سکتے ہیں جو پوری دنیا کو تباہ کر دے گا) ’بکواس‘ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ آئن سٹائن کے بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والے خیالات اور جرمن ورثے نے انھیں شک کی نگاہ سے گھیر رکھا تھا اور ان کے پاس اس کے لیے سکیورٹی کلیئرنس نہیں تھی۔

’درحقیقت بحیثیت امن پسند انھوں نے خود کو اس منصوبے سے دور کر لیا اور ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا کہ جوہری توانائی کے اخراج میں ان کا حصہ ’بالکل بالواسطہ‘ تھا۔‘

اگر کوئی اس کی ترغیب دینے والا تھا تو وہ آئن سٹائن کے سابق طالبعلم لیو زیلارڈ تھے۔

یہ خط جس میں زیلارڈ کا پنسل سے لکھا نوٹ ’اصل نہیں بھیجا گیا‘ موجود تھا سنہ 1964 میں ان کی موت تک زیلارڈ کے پاس رہا۔

جرمن نژاد آئن سٹائن اور ہنگری میں پیدا ہونے والے زیلارڈ دونوں یہودی تھے جو نازی ازم کے عروج کے بعد بھاگ کر امریکہ چلے گئے تھے۔

یہ خط لکھنے کا خیال زیلارڈ کا تھا لیکن وہ اس کوشش میں تھے کہ آئن سٹائن اس پر دستخط کریں۔

کلارنیٹ کہتے ہیں کہ آئن سٹائن نے کافی اختیارات حاصل کیے اور 1921 میں نوبل انعام جیتنے کے بعد وہ ’جدید سائنس کی شخصیت‘ بن گئے۔

’ان کا ایسا اثر و رسوخ تھا جو کسی اور کا نہیں تھا۔ بظاہر دوسرے لوگوں نے روزویلٹ کو متنبہ کرنے کی کوشش کی کہ کچھ مہینوں میں کیا ہو سکتا ہے لیکن اچانک آپ کو البرٹ آئن سٹائن کا ایک خط ملتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آپ کو یہ کرنا چاہیے تو اس کا اثر تو ہوتا ہے۔‘

پھر آخر کار 16 جولائی 1945 کو نیو میکسیکو کے صحرا میں بم کے پروٹو ٹائپ جسے ’گیجٹ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔ اس کا نظارہ کرنے والے مخصوص تماشائیوں نے چشمے پہن کر اسے دیکھا۔

اس کے نتائج فتح اور خوف کے ملے جلے تاثر لیے ہوئے تھے۔ اس دن امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا کہ ’ہم نے دنیا کی تاریخ کا سب سے خوفناک بم دریافت کیا ہے۔‘

جرمنی نے ہتھیار ڈال دیے تھے لیکن جاپان نے نہیں اس لیے یہ سوچا گیا کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کی جاپانی بندرگاہوں پر ایک خوفناک اور بے مثال طاقت سے حملہ کرنے سے جنگ کے خاتمے میں تیزی آئے گی۔

اگرچہ زیلارڈ نے بم دھماکوں کے ایک دن بعد ایک پٹیشن شروع کی تھی جس میں سفارش کی گئی تھی کہ جاپان کو اس طرح کی سخت کارروائی کرنے سے پہلے ہتھیار ڈالنے کی دعوت دی جائے لیکن یہ پیغام وقت پر حکام تک نہیں پہنچا۔

چھ اگست کو ہیروشیما پر ’لٹل بوائے‘ کے نام سے ایک بم گرایا گیا جبکہ ’فیٹ مین‘ کے ساتھ نو اگست کو ناگاساکی میں دھماکہ کیا گیا تھا۔

ایک اندازے کے مطابق اس کے نتیجے میں دو لاکھ افراد ہلاک یا زخمی ہوئے اور کئی لوگ آنے والے برسوں میں تابکاری کے ضمنی اثرات کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔

آج تک کسی بھی تنازع میں جوہری ہتھیاروں کو براہِ راست استعمال کرنے کی یہ واحد مثالیں ہیں۔

اگر آئن سٹائن خط نہ لکھتے تو کیا مین ہیٹن پروجیکٹ موجود ہوتا یا نہیں یہ کہنا مشکل ہے۔

ولکوک لکھتے ہیں کہ ’برطانیہ پہلے ہی امریکہ پر زیادہ سے زیادہ تحقیق کی حمایت کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا تھا۔‘

انھوں نے جوہری ہتھیاروں کی فزیبلٹی سے متعلق برطانیہ کی زیر قیادت ایم اے یو ڈی رپورٹ (1941) کو ’امریکی تحقیق کو آگے بڑھانے کے لیے اہم‘ قرار دیا۔

تاہم آئن سٹائن کا خط اس عمل کو تیز کر سکتا تھا۔

ولکوک کہتے ہیں کہ یہ نہ ہوتا تو شاید اس میں تاخیر ہو سکتی تھی جس کا مطلب یہ ہوتا کہ یہ بم 1945 کے موسم گرما تک استعمال کے لیے تیار نہ ہو پاتا۔

آئن سٹائن نے اپنے 1939 کے خط سے پیدا ہونے والے تشدد اور افراتفری پر سخت افسوس کا اظہار کیا۔

سنہ 1946 میں انھوں نے جوہری جنگ کے خطرات کو عام کرنے اور عالمی امن کے لیے ایک راستہ تجویز کرنے کے لیے جوہری سائنسدانوں کی ہنگامی کمیٹی کی مشترکہ بنیاد رکھی۔

سنہ 1947 میں نیوز ویک میگزین میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں جس کا عنوان تھا ’آئن سٹائن، وہ شخص جس نے یہ سب شروع کیا‘ میں انھوں نےلکھا کہ ’اگر مجھے معلوم ہوتا کہ جرمن ایٹم بم بنانے میں کامیاب نہیں ہوں گے تو میں بم کے لیے کوئی تگ و دو نہیں کرتا۔ آج تکنیکی معلومات ہونے کے باوجود جرمنی اب بھی جوہری ہتھیاروں کا مالک نہیں ہے۔‘

آئن سٹائن نے اپنی بقیہ زندگی جوہری تخفیف اسلحہ کی مہم میں صرف کی۔

سنہ 1954 میں نوبل انعام یافتہ کیمیا دان لینس پالنگ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے روزویلٹ کو لکھے گئے خط کو اپنی ’زندگی کی ایک بڑی غلطی‘ قرار دیا۔

ایٹم بم نے جنگ کے منظر نامے کو یکسر تبدیل کر دیا اور مشرق اور مغرب کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ شروع کر دی جو آج بین الاقوامی تعلقات کو تشکیل دے رہی ہے۔

کلارنیٹ کہتے ہیں کہ ’اب جبکہ نو ممالک کے پاس جوہری ہتھیار ہیں ہم محسوس کرتے ہیں کہ زیادہ تر خطرہ اس خط سے جڑا ہوا ہے۔ یہ آج بھی ایک بہت ہی متعلقہ مسئلہ ہے۔ یہ ایک سایہ ہے جو انسانیت پر لٹکا ہوا ہے۔‘

یہ خط اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ ہماری جدید دنیا کہاں سے آئی ہے اور اس بات کی واضح یاد دہانی ہے کہ ہم یہاں تک کیسے پہنچے۔

فلسفی برٹرینڈ رسل نے ’رسل آئن سٹائن مینیفیسٹو ‘کے نام سے جوہری جنگ کے خلاف ایک قرارداد شروع کی تھی آئن سٹائن نے اپنی موت سے صرف ایک ہفتہ قبل اس کی توثیق کی تھی۔

اس کے ایک حصے میں لکھا ہے کہ ’ہم بحیثیت انسان انسانوں سے اپیل کرتے ہیں۔ اپنی انسانیت کو یاد رکھیں اور باقی سب بھول جائیں۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو ایک نئی جنت کا راستہ کھل جائے گا۔ اگر آپ نہیں کر سکتے ہیں، تو آپ کے سامنے عالمگیر موت کا خطرہ ہے۔‘

T20 World Cup 2024 Super 8 Match: Will Rain Play Spoilsport Against India vs. Bangladesh?