.ہمارے ملک ہندوستان میں اردو زبان کی اہمیت 

0
46

.ہمارے ملک ہندوستان میں اردو زبان کی اہمیت 

ہندوستان میں اردو : اردو کی ولادت ہندوستان میں ہوئی۔ جب پیدا ہوئی تو ملک بہت ہی وسیع تھا۔ شمالی مغرب میں ایران تو شمالی مشرق میں تھائی لینڈ اس کے حدود تھے۔ رفتہ رفتہ یہ حدود سکڑتے گئے۔ 1947 تقسیمِ ہند کے بعد تو بھارت آج کی شکل کا ہوا ہے۔ پھر بھی یہ ملک اتنا وسیع ہے کہ اس کو آج بھی بر صغیر کا بڑا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔

یوپی کو اردو کا ہوم لینڈ تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں تقریباً پونے 4 کروڑ مسلمان رہتے ہیں مگر بمشکل 1 کروڑ 8 لاکھ نے اردو کو مادری زبان درج کروایا۔یہ ٹرینڈ آج سے بیس پچیس سال پہلے شروع ہو گیا تھا، تب مسلمانوں کی آبادی اور اردو آبادی کا تناسب 50 فیصدی تھا، جو بگڑتے بگڑتے 28 فیصد ی پر آ گیا ہے۔ یعنی یہاں 100 میں سے صرف 28 مسلمان اردو کو مادری زبان درج کروا رہے ہیں۔ظاہر ہے، وہ نسلیں جن کو اردو سے جذباتی لگاؤ تھا، ختم ہو رہی ہیں۔ یہی حال راجستھان، مدھیہ پردیش اورشمال کے دوسرے صوبوں کا ہے۔یہ وہ صوبے ہیں جہاں مسلمان عام طور پر اردو کو اپنی زبان سمجھتا تھا –بہار کی صورت حال اترپردیش سے بہتر ہے مگر وہاں بھی حالات تسلی بخش نہیں ہے-وہاں مسلم آبادی پونے 2 کروڑ ہے اور اردو گو آبادی ساڑھے 87 لاکھ۔

جنوبی ہند اور مہاراشٹر کی صورت حال بالکل مختلف ہے۔ یہاں مسلم آبادی اور اردو گو آبادی میں بہت کم فرق ہے۔ تلنگانہ-آندھرا پردیش میں 81 لاکھ مسلمان ہیں اور اردو بولنے والے 75لاکھ—یعنی 90 فیصد مسلمان اردو کواپنی مادری زبان لکھوا رہے ہیں، جبکہ شمال کے صوبوں میں یہ تعدادتیس اور بیس فیصد سے بھی کم ہے۔کرناٹک بھی ایسا ہی صوبہ ہے جہاں اردو بے حد مضبوط نظر آتی ہے۔حد تویہ ہے کہ تمل ناڈو میں بھی اردو بولنے والوں کی تعدادراجستھان اور مدھیہ پردیش کے مقابلہ زیادہ ہے۔گجرات، آسام اور بنگال میں مسلمان کی زبان عام طور پر گجراتی، بنگلہ اور آسامی رہی  ہے مگر شمال کی ان ریاستوں میں تو مسلم معاشرہ میں اردو کا ہی رواج تھا۔

ہم  دل بہلانے کے لیے یہ  کہہ سکتے ہیں کہ  اردو جاننا اور اردو کو اپنی زبان لکھوانے میں فرق ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ شمال میں ایک بڑی اردو گو آبادی ایسی ہے  جو اردو اور ہندی میں کوئی خاص فرق نہیں سمجھتی اور یہ اعداد و شمار اسی رجحان کا مظہر ہیں۔ہندی ملک کی سب سے بڑی اور سرکاری زبان ہے۔ ہندی اور اردو دونوں کی بقا  ضروری ہے۔ہندی بولنے والوں کے تعداد میں دس سال میں 10کروڑ کا حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ 42 کروڑ سے بڑھ کر یہ تعداد اب 52 کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔آٹھویں شیڈیول میں شامل 22 زبانوں میں صرف اردو اور کونکنی کے بولنے والے کم ہوئے ہیں۔

پھر بھی اگر 5 کروڑ  سے کچھ زیادہ لوگ اردو کو اپنی زبان لکھواتے ہیں تو اس کے لیے جنوبی ہندوستان کے اردو معاشرے کا سب سے اہم کردار ہے۔ جن صوبوں میں ہندی ریاستی زبان نہیں ہے، وہاں اردو ابھی بھی مسلم شناخت سے جڑی ہوئی ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم پھر سے زبان کامرثیہ لکھنا شروع کر دیں اور ‘اردو مر رہی ہے’،   جیسے جملوں کی گردان شروع کر دیں۔بہر حال مہاراشٹر، دکن  اور جنوبی ہندوستان کے اردو  بولنے والے اس بات پر بجا فخر کر سکتے ہیں کہ انھوں نے ہی اس زبان سے محبت کا حق ادا کیا ہے۔ بے شک اورنگ آباد سے گلبرگہ  اور حیدرآباد سے ویلور تک کا علاقہ اردو کا مستقر بن گیا ہے۔جنوب کے اردو والے کہہ  سکتے ہیں کہ ان کو اردو کے تیئں محبت کے ثبوت  دینے کی ضرورت نہیں ہے۔وہ اس کا عملی ثبوت پیش کر چکے ہیں۔

صدیوں سے یہ اردو کا علاقہ رہا ہے اور آج بھی یہ اردو کا مضبوط قلعہ ہے۔ شمال، خصوصاً یوپی، جو آبادی کے لحاظ سے ہندوستان کا اور اردو بولنے والوں کا بھی سب سے بڑا صوبہ ہے، وہاں اردو داں طبقے کو اس سے سیکھ لینے کی ضرورت ہے۔