ہمارا معاشرہ اور بے حیائ۔
بے حیائی کیا ہے؟ گناہوں پر شرم نہ محسوس کرنا بلکہ ان کا کھلے عام اعتراف کرنا، بدتمیزی، بداخلاقی اور دوسروں کو ذلیل کرنا بے حیائی کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارے معاشرہ میں یہ تمام باتیں پائی جاتی ہیں۔ ان تمام امور کو دیکھتے ہوئے ذہن کے دریچوں میں ایک ہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ وہی ھندوستان ہے جس کو اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا ہمارے آباؤ اجداد نے بے شمار جانوں کے نذرانہ پیش کیے تھے لیکن ہمارے معاشرے میں بڑھتا انتشار، بے شمار پنپتی برائیوں کی زد میں نوجوان نسل آ چکی ہے۔ جو کہ ہمیں فکر کی دعوت دے رہا ہے۔ معاشرے میں بڑھتی بد فعلی میں عورت اور مرد دونوں ہی شامل ہیں لیکن افسوس کہ لفظ “بے حیائی” کو لوگوں نے صرف عورت ذات تک محدود کر دیا ہے۔ جب کہ ہمارے اسلام میں حیا مرد اور عورت دونوں کے لیے لازم ہے۔
لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ معاشرے میں جو بگاڑ پیدا ہو چکا ہے اس کی زد میں زیادہ تر نوجوان ہیں جو کہ کسی بھی ملک کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کا قول ہے کہ “اگر کسی قوم کو بغیر کسی جنگ کے شکست دینی ہو تو اس کے نوجوانوں میں فحاشی پھیلا دو۔” دشمنانِ اسلام ہمیشہ سے مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتا رہا ہے اور کر رہا ہے۔ دیکھا جائے تو ہمارا معاشرہ مغربی تہذیب کا دلدادہ ہو چکا ہے۔ ہماری نوجوان نسل اپنے مقصد تخلیق سے ہٹ کر فحاشی اور عریانیت کے راستے پر اپنے لیے مقصدِ حیات تلاش کر رہے ہیں۔ مسلم نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں یہ وسوسہ پیدا کیا جاتا ہے کہ بے پردگی اور فحاشی میں ہی ترقی ہے۔
ہماری نوجوان نسل جو مستقبل میں معمارِ ھندوستان ہے وہ مغربی تہذیب اور معاشرے میں پھیلنے والی برائیوں کی زد میں پروان چڑھ رہی ہے۔ اگر آج کے دورِ جدید میں دیکھا جائے تو مختلف ایپس نے پوری دنیا میں فحاشی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ جن کی مقبولیت ایسے شیطانی ذرائع ہیں جن کی وجہ سے بے حیائی مسلمانوں کے گھروں تک پہنچ رہی ہے۔ جس کی زد میں آ کر مسلمان اپنی اسلامی اقدار سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ مسلمان عورتوں میں پردہ اور مردوں میں حیا کا خاتمہ ہوتا جا رہا ہے۔ جس سے کسی بھی معاشرے کو زوال کا شکار ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے لوگ جو مسلمانوں کو دین اسلام سے دور اور ان میں بے حیائی و فحاشی کو پھیلاتے ہیں ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ “جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لیے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہیں، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔”
موجودہ دور کے ہمارے بچے اسلام کے دعویدار تو ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتے جیسا کہ کہا جاتا ہے “بے شک نماز بےحیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے۔” ہمارے آج کے بچے نماز تو پڑھتے ہیں لیکن اتنی جلدی میں کہ پھر وہی گناہ کرنے کے لیے جو ان کو تباہی کے دہانے پر لے آںٔے ہیں۔ شرم و حیا اسلام کا لازم جز ہے۔ اللہ پاک نے مرد اور عورت کے لیے کچھ حدود مقرر کی ہیں لیکن آج مرد اور عورت ان حدود کو تجاوز کر چکے ہیں۔ ہر کوئی آزادی کے نعرے کی زد میں بے حیائی جیسے امور کو وجود میں لا رہا ہے۔ بچیاں حیوانیت کا شکار ہو رہی ہیں اتنے عبرت ناک واقعات سامنے آ رہے ہیں پھر بھی ان سے سبق حاصل نہیں کیا جاتا۔ یہ حرکات ہمارے معاشرہ کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔ ہماری نوجوان نسل اسلام کے مقرر کردہ حدود و قیود کو برطرف کر کے ایسے راستے پر چل رہی ہیں جہاں صرف ذلت و رسوائی ہے۔ جن ماڈرن طور طریقوں کو اپنا رہے ہیں وہ صرف پستی کی طرف لے جاتے ہیں۔ ایسے تمام کاموں کو فروغ دینے میں میڈیا کا کردار زیادہ ہے۔ جو آج کل ڈراموں میں رشتوں کی بے حرمتی، جنسی بے راہ روی پیدا کرنے والے گانے، ڈانس پروگرام، نائٹ کلب، ذہنوں پر عورت کا بھوت سوار کرنے والے اشتہارات بھی شامل ہیں۔ ٹک ٹاک بھی ایک ایسی ایپ ہے جس نے فحاشی کی دنیا میں ایسا انقلاب برپا کیا ہوا ہے کہ اب اسے زندگی کی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ایپ کے ذریعے پھیلائی جانے والی فحاشی کی زد میں مسلم معاشرہ بھی ہے۔ جس طرح لڑکیاں سج سنور کر وڈیوز بناتی، ناچتی گاتی ہیں۔ ایسے کاموں پر ان کے والدین فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے بچے میں ٹیلنٹ ہے جب کہ حقیقت میں وہ اس کی شخصیت کو تباہ کر ریے ہیں۔ آج کا مسلمان اسلامی اقتدار کو فراموش کرکے مغربی تہذیب کو اپنے لیے نمونہ بنا رہا ہے۔ ذرا سوچیں محشر کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو کر کیا جواب دیں گے؟ اللہ پاک ہم سب کو بے حیائی اور برے کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہدایت کا راستہ دکھائے. آمین