امامِ حسین رضی اللہ عنہٗ کی شہادت کا مختصر جامعہ واقعہ

0
52

امامِ حسین رضی اللہ عنہٗ کی شہادت کا مختصر جامعہ واقعہ

حضرت عمار الدھنی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب الباقر رحمہ اللہ سے پوچھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا قصہ مجھے سنائیں تو آپ نے فرمایا : جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ولید بن عقبہ والئی مدینہ کے پاس حسین سے بیعت کے لئے کہا گیا تو آپ نےفرمایا کہ مجھے مہلت دو ، ولید نے نرمی برتی اورع مہلت دیا ۔

اس فرصت کو غنیمت سمجھتے ہوئے آپ نے راتوں رات مکہ شریف کا رخ کیا جہاں اہل کوفہ کیطرف سے بہت سے خطوط بعض روایات میں ہے کہ ایک لاکھ خط {السیر :3/299 } آپ کے پاس آئے اس وقت کوفہ کے امیر حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ تھے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو تحقیق امر کے لئے بھیجا ، اور ان سے کہا کہ جاو اور دیکھو کہ ان لوگوں نے کیا اور کیسے لکھا ہے ۔امامِ حسین رضی اللہ عنہٗ کی شہادت کا مختصر جامعہ واقعہ

امامِ حسین رضی اللہ عنہٗ کی شہادت

مسلم بن عقیل نے دو راہنما اپنے ساتھ لئے اور چلے صحراء میں کہیں پیاس لگی اور ایک راہنما مرگیا جس سے متاثر ہوکر مسلم بن عقیل نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس لکھا کہ انہیں معذور رکھا جائے لیکن آپ نے جواب دیا کہ کوفہ جاؤ اور وہاں کے حالات دیکھو ، حضرت مسلم بن عقیل کوفہ پہنچ کر عوشجہ کے یہاں ٹھہرے ، اہل کوفہ کو جب معلوم ہوا تو بارہ ہزار [ امام ذہبی نے ابن سعد کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ 18 ہزار ] لوگوں نے ان کے ہاتھ پر حضرت حسین کے لئے بیعت کی عبید اللہ بن مسلم نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ اس سلسلے میں نرمی سے کام لے رہے ہیں آپ کو ان لوگوں پر سختی کرنی چاہئے ، حضرت نعمان رضی اللہ عنہنے فرمایا کہ ضعیف و کمزور رہنا میرے لئے اس سے بہتر ہے کہ اللہ کے گناہ کے کاموں میں قوی اور طاقتور رہوں ، جس پردے کو اللہ نے لٹکایا ہے میں اسے پھاڑنا نہیں چاہتا اور اپنی بات یزید کے پاس لکھ کر بھیج دی ،، یزید ان دنوں عبید اللہ بن زیاد سے ناراض تھا پھر اپنی رضامندی کا خط لکھتے ہوئے اس سے کہا کہ میں تمہیں بصرہ کے ساتھ کوفہ کا بھی امیر بناتا ہوں اور اس کے پاس لکھا کہ مسلم بن عقیل کو قتل کردو ، عبید اللہ بن زیاد بصرہ کے کچھ سرداروں کے ساتھ اپنے چہرے کو چھپائے ہوئے کوفہ میں داخل ہوا جس کسی مجلس پر سے بھی اس کا گزر ہوتا تھا اور ان کو سلام کرتا تھا تو لوگ جواب میں کہتے تھے ” وعلیکم السلام یا ابن رسول اللہ ” ۔۔ کیوں کہ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ حسین رضی اللہ عنہ ہیں ۔۔