Earthquake in Delhi during Lockdown: reality and possible impact

0
1194

Muaz Muddassir qasmi.    Ahmedabad     

اس وقت جب کہ پورا ملک بلکہ پوری دنیا کرونا وائرس کی گرفت میں ہے، اور اس سے نجات پانے کے لیے مختلف طریقے اپنائے جارہے ہیں،دل چسپ بات یہ ہے کہ باوجود ہزار کوششوں کے اب تک کوئی خاص علاج دریافت نہیں ہوسکا ہے۔ تاہم اس کے مہلک اثر سے حفاظت کا سب سے مؤثر طریقہ گھروں میں بند رہنے کو بتایا جارہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا مکمل طور پر خود کو اپنی ذات تک محصور کیے ہوئے ہے۔ اور اسی میں سب کی عافیت اور سالمیت ہے۔

اسی دوران اچانک خبر آتی ہے کہ بھارت کی راجدھانی دہلی میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔ اس کے کیا اسباب و عوارض رہے ہم اس کی تہہ میں نہیں جائیں گے، البتہ زلزلے کے تعلق سے کچھ اہم اور بنیادی معلومات قلم بند کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

زلزلے کی تباہی سے بچنے کے لیے عام طور پر انسان گھروں سے باہر کھلے میدان کی طرف بھاگتاہے، مگر دہلی کے  زلزلے کی خبر نے عجیب شش و پنج میں ڈالدیا کہ آخر اس وقت جان بچانے کا کونسا حربہ اپنا یا جائے؟ چونکہ ایک طرف کرونا کی شدت نے گھروں کو عافیت کا ٹھکانہ ماننے پر مجبور کیا ہے تو وہیں  دوسری طرف یہ زلزلہ گھروں میں محصور رہنے کو آفت جاں بتلا رہا تھا اور باہر کی طرف جانے کا متقاضی تھا۔ ان تمام کشمکش کی کیفیات میں خوش آئند بات یہ ہے کہ اس زلزلہ میں زیادہ شدت نہیں تھی۔

خبروں کے مطابق یہ زلزلہ 3.5 کا تھا۔ یعنی زلزلے میں اتنی  زیادہ شدت نہیں تھی کہ جس سے کسی طرح کا جانی یا مالی نقصان ہو۔

زلزلہ دنیا کے کسی بھی خطے میں ہو، اگر اس کی سنگینی اور اثرات کو جاننا اور محسوس کرنا ہو تو اس کے لیے ریکٹر اسکیل کا استعمال کیا جاتاہے۔ ریکٹر اسکیل کی مدد سے دنیا کے کسی بھی علاقے میں آئے زلزلے کی شدت کا اندازہ بآسانی لگا لیا جاتا ہے۔ اور اس طرح دنیا کے کسی کونے میں بیٹھا شخص کسی دوسری جگہ میں آئے  زلزلے کی شدت کو جان سکتاہے۔

درج ذٰیل سطور میں تفصیل کےساتھ ہم  اس کو ذکر کریں گے کہ کون سا زلزلہ کتنا اثرانداز ہوتاہے۔

سب سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ ریکٹر اسکیل کب دریافت ہوا اور اسکا موجد کون ہے؟ اس سلسلے میں تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی دریافت امریکن سائنسداں چارلیس ایف ریکٹر  کے ذریعہ سنہ 1935 میں ہوئی تھی۔ اسی کے نام سے اس پیمائشی آلہ کو جانا جاتاہے۔

اس کو  Richter scale یا Richter’s magnitude scale  کہا جاتاہے۔

عام طور پر  زلزلے کے جھٹکے کی خبر 2.5 سے  7.9 تک کی شائع ہوتی ہے۔ اور ریکٹر اسکیل کا  آخری magnitude 10.0 ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ 10.0 کی شدت کا زلزلہ آج تک کبھی نہیں آیا کیوں کہ جدید تحقیقات کے مطابق اتنی شدت کا زلزلہ اگرآئے گا تو دنیا کاوجود ہی ختم ہوجائے گا۔

2.0 یا اس سے کم کا زلزلہ عام طور پر انسان محسوس نہیں کرپاتا ہے۔ یہ بہت ہی چھوٹا زلزلہ مانا جاتا ہے ۔ اسے Seismograph(زمین کی حرکت کو ناپنے والا آلے) سے محسوس کیا جاسکتاہے۔سال میں لاکھوں مرتبہ اور یومیہ 8000 مرتبہ اس طرح کے جھٹکے محسوس کیے جاتے ہیں۔

2.0 سے 2.9 تک کے زلزلے  سال میں دس لاکھ سے زائد مرتبہ اور یومیہ تقریبا 1000 دفعہ رونما ہوتے ہیں۔  اسکا اثر بس اتنا ہوتاہےکہ بغیر ہوا کے درخت کے پتے ہلنے لگتے ہیں، اس کا احساس چندہی  لوگوں کو ہوپاتاہے۔

3.0 سے 3.9 تک کی شدت والے زلزلے سال میں  49000 سے زائد مرتبہ اور دن میں تقریبا 134 بار  محسوس کیے جاتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ بھی کم شدت والا چھوٹا زلزلہ مانا جاتاہے۔ اسے بھی بہت سے لوگ محسوس نہیں کرپاتے ہیں۔ اس طرح کے زلزلوں سے گھر کے اندر رکھے ساز و سامان کچھ حدتک جھولتے نظر آتے ہیں۔

4.0 سے 4.9 کے درمیان کے زلزلے سال میں دس ہزار سے پندرہ ہزار مرتبہ اور یومیہ تقریبا  17 مرتبہ دنیا کے مختلف حصوں میں محسوس ہوتے رہتے ہیں۔ اسے کسی حدتک ہلکا زلزلہ کہا جاسکتاہے۔اتنی شدت کا زلزلہ جہاں آئے گا وہاں کی زیادہ تر عوام اسے محسوس کرسکتی ہے۔ اس زلزلہ میں گھر کے اندر رکھی چیز یں یا تو ہلنے لگتی ہیں یا گرجاتی ہیں، اسی طرح سوتے ہوئے لوگ جاگ جاتے ہیں۔

5.0 سے 5.9 تک  کا زلہ درمیانی قسم کا زلزلہ شمار ہوتاہے۔ یہ سال میں  ایک ہزار سے پندرہ سو مرتبہ اور یومیہ عموما دو مرتبہ محسوس ہوتا ہے ۔ اس میں زلزلے  کے epicenter (مرکزی علاقے) کا ہر فرد زلزلے کے جھٹکوں کو محسوس کرسکتاہے۔ اس شدت کے زلزلوں سے  عمارتوں کو یا تو نقصان پہنچ سکتاہے یا کمزور تعمیرات منہدم ہوسکتی ہیں۔ اس میں عموما سامان اور عمارت وغیرہ کے گرنے سے زیادہ نقصان ہوتاہے۔

6.0 سے 6.9  کی شدت کا زلزلہ  کچھ حدتک بڑا زلزلہ مانا جاتاہے۔ یہ سال میں عموما 100 سے 150 مرتبہ آتا ہے۔  مرکزی علاقےکے ساتھ ساتھ کافی دور تک کے علاقوں میں اسکا اثر محسوس ہوتاہے ۔ اس سے عمارتوں کو  کافی نقصان پہنچتاہے، عموماً چمنیاں (اینٹ پکانے کی جگہ) گرجاتی ہیں، اور دیواروں میں دراڑیں آجاتی ہیں۔

7.0 سے 7.9 تک کا زلزلہ بڑے  زلزلوں میں شمار ہوتاہے۔ اس طرح کے زلزلوں کا وقوع سال میں دس سے بیس مرتبہ ہوتاہے۔ ان کی وجہ سے  بہت سے علاقوں میں بڑے پیمانے پر نقصانات ہوتے ہیں۔اسکے مرکز ی علاقوں کی زمینیں اور پہاڑ یں اور پٹھاریں بھی متاثر ہوتے ہیں اور اپنی جگہ سے کسی حدتک کھسک جاتے ہیں۔ کئی منزلہ عمارتیں زمیں بوس ہونے لگتی ہیں، اسی طرح گھروغیرہ یکے بعد دیگرے گرنے شروع ہوجاتے ہیں۔

8.0 سے 8.9  کے درمیان کے زلزلے بھاری زلزلے مانے جاتے ہیں۔ یہ سال میں عام طور پر ایک مرتبہ آتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر  کئی علاقوں میں بہت زیادہ تباہی آتی ہے۔ اگر اس کا مرکز سمندر ہو تو یہی زلزلہ سونامی کا روپ دھار لیتا ہے۔

9.0 سے 9.9 کے درمیان والے زلزے  بہت بھاری زلزلے شمار کیے جاتے ہیں۔ اس طرح کے زلزلے بہت ہی کم وجود میں آتے ہیں۔عموما پانچ سال سے پچاس سال کے درمیان ایک  دو مربتہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس طرح کے زلزلوں سے بہت بڑی تبا ہی آتی ہے۔ مضبوط عمارتیں اس کی شدت کو برداشت نہیں کرپاتی ہیں۔بھاری اشیاء ہواؤں میں اڑنے لگتی ہیں ، زمین میں بڑے بڑے شگاف ہوجاتے ہیں ۔ یعنی  اس کے مرکزی علاقے میں ایسی تباہی آتی ہے جس کا ہم اندازہ نہیں لگا سکتے ۔

10.0 یا اس سے اوپر کا زلزلہ آج تک محسوس نہیں کیا گیاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ  اتنی شدت کا زلزلہ اگر آئے گا تو انسان اس کے نقصانات کا تصور بھی نہیں کرسکتاہے۔

دنیا کے کسی بھی حصے میں اگر زلزلہ کی خبر آتی ہے تو ریکٹر اسکیل کی  مدد سے کوئی بھی شخص باآسانی اس زلزلے کی سنگینی کو معلوم کرسکتاہے، اس کی شدت، نقصان اور تباہی کااندازہ اپنے مقام پر رہتے ہوئے لگایا سکتاہے۔

آج جب میڈیا کے واسطے سے دہلی کے زلزلے کی خبر موصول ہوئی تو اس کی  magnitude سے اپنے مقام پر رہتے ہوئے اس کا اندازہ باآسانی لگا لیا گیا کہ یہ زلزلہ زیادہ مہلک نہیں تھا، جس سےایک طرح کا قلبی اطمینان ہوا۔
Mauz qasmi can be reached at muazmuddasir@gmail.com