تعلیم نسواں ( دوسرا باب)

0
264

جب کہ ڈھل جاتی ہے سانچے میں وفا کے عورت۔
بجھ ہی جاتی ہے مگر شما جلاکے عورت۔
نقش الفت کے محبت کے ابھارے عورت۔
ماں کی مامتا بھی ہے بیٹی کی وفا ہے عورت۔
ساری دنیا بھی اگر دے دوگے قیمت کے لیے پھر بھی بیچیگی نہ ایمان یہ دولت کے لۓ۔

جیسا کہ میں نے پہلے باب میں یہ ذکر کیا ہے کہ مختلف لوگوں کے مختلف خیالات ہیں جیسے اکبر الہ آبادی کے بارے میں بتایا جو خواتین کی تعلیم کے خلاف تھے لیکن میں کچھ لوگوں کو اجاگر کرنا چاہتی ہوں جنہوں نے خواتین کی تعلیم کے لیے آواز اٹھائی اور میں بہت شکر گزار ہوں ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کا کہ انھونے عورتوں کی تعلیم کو اہمیت دی اور نہ صرف اہمیت دی بلکہ انہونے قانون میں عورت کے حقوق کو رکھا۔ امبیڈکر نے زندگی بھر خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کی۔ انہوں نے نہ صرف انہیں مساوی حقوق فراہم کیے بلکہ چار ایکٹ بھی متعارف کروائے جنہوں نے معاشرے میں خواتین کے مقام کو مضبوط کیا۔ ان کو ہندو کوڈ بل 13 میں یکجا کیا گیا تھا۔ یہ ہیں: ) ہندو میرج ایکٹ، 1955۔

اسی طرح اور بھی ہیں۔مثلا

راجہ رام موہن رائے– وہ ستی اور بچوں کی شادی کے رواج کو ختم کرنے کی کوششوں کے لیے جانا جاتا تھا۔ رام موہن رائے نے لڑکیوں کے حقوق اور خواتین کی تعلیم کی وکالت کی۔ وہ اس ملک میں خواتین کی آزادی کی تحریک کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ اس زمانے میں ہندو سماج میں عورتوں کی حالت بہت ابتر تھی۔

بھوپال کی بیگم- بھوپال کی بیگموں نے مسلم خواتین کی تعلیم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے خواتین کے لیے سکول بنائے۔ اس کے علاوہ، وہ قدامت پسندانہ نظریات اور مذہبی عقائد کے خلاف بہت آواز اٹھاتے تھے جو خواتین پر ظلم کرتے تھے۔
خواتین کی تعلیمی زندگی ایک طویل عرصے تک بہت سے لوگوں کی سخت جدوجہد کے بعد بدلی ہے۔ بہت سے لوگوں نے خواتین کی تعلیم کے لیے آواز اٹھائی ہے اور انہیں تعلیم حاصل کرنے اور اپنے پیروں پر انحصار کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اس زمانے کے لوگ بہت ضدی اور ظالم بھی تھے ان کے ظلم کی بھی کوئی حد نہ تھی انہوں نے اپنی بیٹیوں کو بھی ان کی پیدائش کے فوراً بعد قتل کر دیا اور بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا اور اگر انہوں نے انہیں دفن نہیں کیا تو ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا اور انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی بہت چھوٹی عمر میں کر دی۔
مختصر یہ کہ لڑکیوں کی زندگی دکھوں سے بھری ہوتی تھی ان کے گھر میں انہیں فیصلہ کرنے کی اجازت نہ تھی اور نہ ہی وہ اپنے گھر والوں کے سامنے بات کر سکیں خواتین کے نقطہ نظر کی ان کے خاندان میں کوئی اہمیت نہیں تھی۔

اور آخر میں میں یہ کہنا چاہونگی کہ۔
آج کے اس دور میں عورتوں کی تعلیم بہت ضروری ہے۔ عورتوں کی تعلیم کے حوالے سے لوگوں کو اجاگر کرنے کے لئے پروگرام کرنے چاہئیں تاکہ ذیادہ سے ذیادہ عورتیں تعلیم سے ہموار ہوسکے اور وہ ملک و قوم کی ترقی میں اپنا نمایاں کردار ادا کرسکیں۔ آئیے ہم سب ملکر اس سوچ کو بدلیں اور ایک نۓ زمانے کا آغاز کریں۔