اردو زبان کے آغاز و ارتقاء سے متعلق لوگوں نے جو رائے قائم کی ہے ان باتوں کو ہم پیش نظر رکھ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مختلف لوگوں کے ملنے جلنے سے ایک نئی زبان وجود میں آئ اور اس کی وجہ سے اس کی ہندوستانیت میں اضافہ ہوتا گیا اور اس کی شیرینی میں اس کی محبت میں ہر مرحلے میں ہر موقع پر آواز دیتی رہتی ہےکہ۔
ساز دل چھیڑ کہ بھی توڑ کہ بھی دیکھ لیا۔
اسے میں نغمہ ہی نہیں محبت کے سوا۔
سرزمین ہند پر اقوام عالم کے فراق
قافلے بستے گئے ہندوستاں بنتا گیا۔
اور آہستہ آہستہ ہندوستان میں اردو نے اپنا مقام حاصل کیا اور اردو زبان و ادب کی ترقی کا آغاز اس دن ہو گیا تھا جس دن شعراۓ دہلی کلام ولی سے پہلی بار روشناس ہوۓ تھے اور انھیں احساس ہو گیا تھا کہ یہ زبان بھی اس قابل ہے کہ اس میں شاعری کی جاۓ۔
چنانچہ شاہ حاتم شاہ مبارک آبرو اور مرزا مظہر جیسے بلند پایہ شاعراء اس طرف متوجہ ہوئے اس کے بعد شاعری کے سنہری دور کا آغاز ہوا اس دور میں میر سودا اور درد نے اردو شاعری کو زمین سے آسمان پر پہنچا دیا اس کے بعد دہلی اجڑ گئی اور شاعری کی ایک محفل لکھنؤ میں آراستہ ہوئی مگر لکھنو کی شاعری کا انداز دہلی کی شاعری سے مختلف تھا اور یہاں کی شاعری میں ہلکا پن ہونا بالکل فطری بات تھی آہستہ آہستہ دہلی کی اجڑی محفل پھر سے بسی اب یہ غالب و مومن اور ذوق کی دہلی تھی ان شاعروں کے دم سے شاعری کو فروغ ہوا ادھر نثر میں بھی بلند پایا داستانیں وجود میں آئیں۔
اور اردو زبان و ادب بہت تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کر رہے تھے کہ تاریخ کا ورق پلٹ گیا۔ ملک میں ایک آگ سی لگ گئی تھی سجی سجائی محفل اجڑ گئیں اور کچھ ہی دنوں میں دنیا نے نے یہ سن لیا کہ ہندوستان سے مغل سلطنت کا خاتمہ ہوگیا اور کمپنی بہادر کا سکہ چلنے لگا ۔