پہلی صدی ہجری کی پہلی فقیہ خاتون امّ المؤ منین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
اسلام نے مرد وعورت دونوں کو علم حاصل کرنے کا حکم دیا ہے؛ چنانچہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم جس طرح مرد کو تعلیم دیتے تھے، انھیں قرآن پاک اور دین کے احکام سکھلاتے تھے، اسی طرح خواتین کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دیتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ جس طرح مرد میں فقہا ومحدثین اور دیگرعلوم وفنون میں مہارت رکھنے والے پیدا ہوئے ، اسی طرح خواتین میں بھی بلند پایہ عالمات، محدثات، فقیہات گزری ہیں، علمی میدان میں خواتین کسی طرح بھی مرد حضرات سے پیچھے نہیں رہیں،اگرچہ تعداد کے اعتبار سے کمی بیشی ہوسکتی ہے۔
امّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت ابو بکر صدیق کی دختر ہیں، ان کی والدہ کا نام ام رومان تھا، نوسال کی عمرمیں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئی تھیں، فتاوی اور احادیث دونوں لحاظ سے ان کا شمار’’ مُکثرین‘‘ میں ہوتا ہے، حضور…کی رحلت کے وقت ان کی عمر اٹھارہ سال تھی، احادیث میں ان کے متعدد مناقب وارد ہوئے ہیں،
حضرت عائشہ کی فقاہت
حافظ ابن حجر، علامہ زرکشی اور بعض دیگر حضرات انھیں فقیہہ کہا ہے۔نیز متعدد بلند پایہ اہلِ علم نے ان کی فقہی بصیرت، قوتِ استدلال اور علم میں پختگی کی گواہی دی ہے؛چنانچہ حضرت ابوموسی اشعری فرماتے ہیں:
ما أشکل علینا أصحاب رسول اللّٰہ صل اللّٰہ علیہ و سلم حدیث قط فسألنا عائشۃ إلا وجدنا عندہا منہ علماً۔
جب ہم لوگوں یعنی حضور…کے صحابہ کو کسی حدیث کے بارے میں اشکال ہوتا اور پھر اس کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھتے تو ان کے پاس لازماً اس کا علم ہوتا تھا۔
حضرت عطا فرماتے ہیں
کانت عائشۃُ أفقہَ الناسِ وأعلمَ الناس۔
حضرت عائشہ لوگوں میں سب سے زیادہ فقیہ اور زیادہ علم والی تھیں۔
حضرت عروہ بن زبیر فرماتے ہیں
ما رأیت أحدًا أعلمَ بفقہٍ ولا بطبٍ ولا بشعرٍ من عائشۃ۔
میں نے حضرت عائشہ سے بڑھ کر فقہ، طب اور شعر کا علم رکھنے والا نہیں دیکھا۔
حضرت مسروق کا بیان ہے
رأیت مشیخۃ أصحاب محمد الأکابر یسألونہا عن الفرائض۔
میں نے حضور…کے بڑے بڑے صحابہ کودیکھا کہ وہ حضرت عائشہ سے میراث سے متعلق سوال کرتے تھے۔