غزل کسے کہتے ہیں۔
غزل کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنے یا عورتوں کی باتیں کرنے کے ہیں۔ چونکہ غزل میں روایتی طور پر وارداتِ عشق کی مختلف کیفیات کا بیان ہوتا ہے اس لیے اس صنفِ شعر کا یہ نام پڑا۔ غزل اس چیخ کو بھی کہا جاتا ہے جو شکار ہوتے ہوئے ہرن کے منہ سے نکلتی ہے۔
غزل سے پہلے قصیدے نے جنم لیا۔ قصیدہ کسی آدمی یا کسی اور موضوع پر مسلسل اشعار میں قافیہ اور ردیف کی پابندی ہوتی تھی۔ بہت سے قصیدوں میں صرف قافیہ ہوتا تھا ردیف نہیں ہوتی تھی۔ یہ صنفِ سخن عربی شاعری سے فارسی میں آئی اور فارسی سے اردو میں۔ ایک قصیدے میں بسا اوقات صدہا اشعار ہوتے تھے۔ دنیا کی دوسری زبانوں میں ردیف اور قافیہ کی اتنی پابندی ناممکن ہے کیونکہ دوسری زبانوں کی لغات میں دو دو تین تین سو ہم قافیہ الفاظ ہیں ہی نہیں اور نہ ان کے صرف و نحو میں ان صدہا ہم قافیہ الفاظ کو ایک متعینہ ردیف سے ملا کر باندھا جاتا ہے۔ جلیل مانکپوری کے ایک قصیدے کا یہ مصرعہ ہے،
شبِ غم لاکھ طوفانی ہو تڑکا ہو ہی جاتا ہے۔
اس قصیدے میں ’’تڑکا‘‘ قافیہ ہے اور ’’ہو ہی جاتا ہے‘‘ ردیف ہے۔ اس قصیدے میں سیکڑوں ہم قافیہ الفاظ آ سکتے ہیں جنہیں ’’ہو ہی جاتا ہے‘‘ کے ساتھ باندھا جاسکتا ہے۔ مثلاً ’’ایسا ہو ہی جاتا ہے‘‘ تمہارا ہوہی جاتا ہے ’’اچھا ہو ہی جاتا ہے‘‘ کسی کا ہوہی جاتا ہے ’’پیدا ہو ہی جاتا ہے‘‘ ہویدا ہوہی جاتا ہے ’’اشارہ ہو ہی جاتا ہے‘‘ ، کی ردیف کے ساتھ باندھے جاسکتے ہیں۔
کسی ایک موضوع پر قصیدہ کہنے کا طریقۂ کار یہ ہوتا تھا کہ بہت سے ہم قافیہ و ہم ردیف اشعار کہتے چلے جاتے اور جب شاعر یہ بکھرے ہوئے اشعار کافی تعداد میں کہہ لیتا تھا تو اس کے بعد اصل موضوع کی طرف رجوع کرتا تھا۔ یہ ابتدائی اشعار بظاہر غیر مسلسل ہوتے تھے لیکن ان میں داخلی طور پر ایک تسلسل ہوتا تھا اور ان اشعار کو قصیدے کی اصطلاح میں ’’تشبیب‘‘ کہتے تھے۔ تشبیب کے اشعار کہہ چکنے کے بعد شاعر اسی ردیف میں اور اسی قافیے میں قصیدے کو ایک نیا موڑ دے دیتا تھا۔ اس نئے موڑ کو ’’گریز‘‘ کہتے تھے۔ ’’گریز‘‘ میں اصلی موضوع پر براہِ راست اشعار کہے جاتے تھے۔