استاذ کے حقوق
دنیا میں سب سے زیادہ پاکیزہ رشتہ استاد اور شاگرد کا ہے لیکن اس رشتے میں ترقی اس وقت تک ترقی نہیں ہوسکتی جب تک استاد کے حقوق پورے نہ کئے جائیں۔استاد کا دل علم کا سمندر ہوتا ہے اور وہ اپنا علم اپنے شاگرد کو دینے میں ذرہ بھر خیانت نہیں کرتا۔
انسان کے وجود اور کمال میں 2 شخصیات کا کردار ہوتا ہے:(1)والدین:جو دنیا میں آنے کا سبب بنتے ہیں۔ (2)استاد:جو عالَم مادہ سے عالَمِ روحانیت کے ساتھ رابطہ مضبوط کرتے ہیں۔والدین بولنا سکھاتے ہیں اور استاد کب بولنا،کہاں بولنا اور کیسے بولنا سکھاتے ہیں۔والدین کے ساتھ ساتھ روحانی باپ(استاد)کا زیادہ کمال ہوتا ہے۔ حضرت امام زین العابدین نے استاد کے بہت سارے حقوق بیان کئے ہیں جن میں 6 حقوق درج ذیل ہیں
اَلتَّعْظِیْمُ لَہُ: استاد کا احترام کرو۔
وَلَا تُحَدِّثُ فِیْ مَجْلِسِہٖ اَحَدًا: دورانِ کلاس استاد کے سامنے آپس میں بات نہ کرو۔
وَاَنْ تَدْفَعُ عَنْہُ اِذَا ذُکِرَ عِنْدَکَ بِسُوْءٍ: اگر کوئی استاد کی برائی کر رہا ہو تو اپنے استاد کا دفاع کرو۔
وَاَنْ تَسْتُرْ عُیُوْبَہُ وَتُظْھِرْ مَنَاقِبَہُ: اپنے استاد کے عیب چھپاؤ اور اپنے استاد کے اوصاف ظاہر کرو یعنی بیان کرو۔
اَکْرِمِ الْاُسْتَاذَ وَلَوْ کَانَ فَاسِقًا: استاد کا احترام کرو چاہے وہ فاسق ہی کیوں نہ ہو۔
وَلَا تُجِیْبَ اَحَدًا یَسْئَلُہُ عَنْ شَیْئٍ حَتّٰی یَکُوْنَ لَہُ ھُوَ الَّذِی یُجِیْبُ: استاد کی موجودگی میں اگر کوئی شخص سوال کرے تو استاد محترم سے پہلے جواب نہ دو۔
حق:کسی انسان کو وہ چیز دینا جس کا وہ مستحق ہے حق کہلاتا ہے۔
شاگرد جب تک استاد کے حقوق پورے نہ کرے وہ علم تو شاید حاصل کرلے مگر فیضانِ علم سے یقیناً محرومی ہوتی ہے۔استاد کے حقوق پورے کرنے کے لئے پہلے حقوق جاننا ضروری ہیں۔لہٰذا استاد کے حقوق پیشِ خدمت ہیں۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:عالم کا جاہل پر اور استاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے گفتگو شروع نہ کرے۔اس کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں نہ بیٹھے۔چلتے وقت اس سے آگے نہ بڑھے۔اگر وہ اندر ہو تو دروازہ نہ بجائے بلکہ اس کے باہر آنے کا انتظار کرے۔اگرچہ اس سے ایک ہی حرف پڑھا ہو اس کے سامنے عاجزی کرے کا اظہار کرے۔اس کے حق کو اپنے ماں باپ بلکہ تمام مسلمانوں کے حق پر مقدم رکھے۔ جس سے اس کے استاد کو اذیت پہنچی وہ برکاتِ علم سے محروم رہے گا۔اپنے مال میں سے کسی چیز سے استاد کے حق میں بخل سے کام نہ لے یعنی جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کردے۔اور اس کے قبول کرلینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت سمجھے۔
استاد کا ادب:استاد کا ادب و احترام شاگرد پر لازم ہے بغیر ادب کے وہ اپنے استاد سے فیض یاب نہیں ہوسکتا۔استاد کے ادب کی وجہ سے علم کی راہیں آسان ہوجاتی ہیں،ادب ہی وہ وصف ہے جس کی وجہ سے شاگرد اپنے معلم کے نزدیک محترم بن جاتا ہے۔ادب کا وہ مقام ہے جس سے علم بھی لا علم ہے۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اپنے استاد کے ادب کی وجہ سے استاد کا نام نہ لیتے تھے بلکہ کنیت سے پکارتے تھے۔ہمارے اسلاف کی زندگیاں اس بات کا نچوڑ ہیں کہ جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔
استاد کو اپنا روحانی باپ سمجھنا:استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے لہٰذا طالبِ عالم کو چاہئے کہ وہ اسے اپنے حق میں حقیقی باپ سے بڑھ کر شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا کی آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں جبکہ اساتذہ اسے نازِ دوزخ اورمصائبِ آخرت سے بچاتے ہیں۔
بیمار ہونے پر عیادت:اگر استاد بیمار ہوجائے تو سنت کے مطابق اس کی عیادت کرے اور بیمار کی عیادت کرنے کا ثواب لوٹے جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کے لئے صبح کو جائے تو شام تک اس کے لئے ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے رہتے ہیں اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے رہتے ہیں اور اس کے لئے جنت میں ایک باغ ہوگا۔
آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنے اساتذہ کرام کے حقوق کو یاد رکھنے اور ان کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین