نظامِ عالم اور عدل و انصاف قوموں اور ملکوں کی تباہی کے اسباب۔

0
47

نظامِ عالم اور عدل و انصاف قوموں اور ملکوں کی تباہی کے اسباب۔

صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  کی حدیث میں ان سات اشخاص کا ذکر آیا ہے جو قیامت کے دن عرشِ الٰہی کے سائے میں ہوں گے، ان میں سر فہر ست امام عادل کا نام آتا ہے عدل درحقیقت اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی عظیم الشان صفت ہے، قرآن کریم میں ارشاد باری ہے
’’ اللہ نے گواہی دی کہ کسی کی بند گی نہیں اس کے سوااور فر شتوں نے اور علم والوں نے بھی، وہی حاکم انصاف کا ہے۔ کسی کی بند گی نہیں سوا اس کے، زبردست ہے حکمت والا ۔‘‘
حق تعالیٰ شانہٗ خود عادل ہے، اس کا نازل کر دہ قانون ( شریعتِ محمدیہ) سراپا عدل ہے، اس لیے بے شمار آیتوں میں بندوں کو عدل وانصاف کا حکم دیا گیا ہے اور اس میں ایسی باریکیوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ عقل حیران ہے۔ قرابت کے مو قع پر بڑے سے بڑے انصاف پرور کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں اور وہ جانب داری کی خاطر عدل وانصاف کا دامن چھوڑ دیتا ہے، مگر فرزندانِ اسلام سے ایسی  نازک صورت حال میں بھی عدل وانصاف قائم رکھنے کا عہد لیا گیا ہے قرآن کریم میں ارشاد باری  ہے:
’’ اے ایمان والو! قائم رہو انصاف پر، گواہی دو اللہ کی طرف کی، اگر چہ نقصان ہو تمہارا، یا ماں باپ کا، یا قرابت والوں کا، اگر کوئی مالدار ہے یا محتاج ہے تو اللہ ان کا خیرخواہ تم سے زیادہ ہے، سو تم پیروی نہ کرو دل کی خواہش کی انصاف کرنے میں۔‘‘
اسی طرح جب کسی سے بغض وعداوت ہو تو عدل وانصاف کے تقاضے عمومًا بالائے طاق رکھ دیئے جاتے ہیں اور اپنے حریف کو نیچا دکھا نے کے لیے آدمی ہر جائز وناجائز حربہ تلاش کرتا ہے، لیکن احکم الحاکمین کی جانب سے مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ ایسے موقع پر بھی عدل وانصاف کی ترازو ہاتھ سے نہ چھوڑیں، بلکہ ہر حال میں عدل وانصاف کو قائم رکھیں:
’’ اے ایمان والو! کھڑے ہوجایا کرو اللہ کے واسطے گواہی دینے کو اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو، عدل کرو، یہی بات زیادہ نزدیک ہے تقویٰ سے اور ڈرتے رہو اللہ سے، اللہ کو خوب خبر ہے جو تم کر تے ہو ۔‘‘

نظامِ عالم اور عدل و انصاف 

دراصل کا ئنات کا نظام ہی عدل وانصاف سے وابستہ ہے، نظامِ عالم کے لیے عدل وانصاف سے بڑھ کر اور کوئی چیز ضروری نہیں۔ بلاشبہ حاکمِ عادل کا وجود اس عالم کے لیے سایۂ رحمتِ الٰہی اور کسی عدل کش حاکم کا تسلُّط عذابِ الٰہی ہے، جو بندوں کی نا فرمانیوں کی پاداش میں ان پر نازل کیا جاتا ہے ۔

کسی مملکت کی تباہی وبربادی کے عوامل کا جائزہ لیجئے تو دو بنیادی چیزیں سامنے آئیں گی، قوم کا فسق وفجور اور حکمرانوں کا ظلم وعدوان، جب کوئی قوم خدا فراموشی کی روش اختیار کرتی ہے، الٰہی قوانین سے سرکشی کرتی ہے اور فسق ومعصیت کے نشہ میں بدمست ہوکر حلال وحرام اور جائز و ناجائز کے حدود علانیہ توڑنے لگتی ہے تو ان پر جفا کیش اور جابر وظالم حاکم مسلَّط  کردیئے جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں کسی قوم کی تباہی وبر بادی کے بارے میں ایک قانون عام بیان فرمایا ہے اور وہ
’’ اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کر نا چاہتے ہیں تو اس کے خوش عیش لوگوں کو حکم دیتے ہیں، پھر جب وہ لوگ وہاں شرارت مچا تے ہیں، تب ان پر حجت تمام ہوجاتی ہے ،پھر اس بستی کو تباہ اور غارت کر ڈالتے ہیں۔‘‘
قوم کا فسق وفجور اور ملوک وسلاطین کا ظلم ہی سب سے پہلے اس عالم کی تباہی وبر بادی کا ذریعہ بنتا ہے۔ ظلم واستبداد کی چکی میں پہلے سر کش قوم پستی ہے، بالآ خر یہی چکی ظالم وجا بر کو بھی پیس ڈالتی ہے۔ اہلِ دانش کا قول ہے کہ:’’ کفر کے ساتھ حکومت رہ سکتی ہے، مگر ظلم واستبداد کے ساتھ نہیں رہ سکتی ۔‘‘
درحقیقت کا ئنات کا حقیقی تصرف واقتدار اللہ رب العالمین اور احکم الحاکمین کے ہاتھ میں ہے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالم کو چندے مہلت دیتا ہے، لیکن جب اسے پکڑتا ہے تو پھر اسے نہیں چھوڑتا۔ یہی وجہ ہے کہ ظالم حکمران زیادہ دیر تک مسندِ اقتدار پر نہیں رہ سکتا، بلکہ دوسروں کے لیے درسِ عبرت بن کر بہت جلد رخصت ہوجاتا ہے۔ تاریک دور کے فرعون وہا مان اور شداد ونمرود کو جانے دو، ماضی قریب میں اسٹالن، ہٹلر اور مسولینی وغیرہ کا عبرت ناک حشر کس نے نہیں دیکھا اور برطانیہ کا حشر بھی سب کے سامنے ہے۔وہ ظالم جس کی بادشاہی میں آفتاب غروب نہیں ہوتا تھا، آج سمٹ سمٹا کر ایک چھوٹے سے جز یرے میں پناہ گز ین ہے۔ خود ہماری مملکتِ خدا داد پاکستان کی چھوٹی سی عمر میں جابر حکمرانوں کی بے بسی کے عبرت ناک مظا ہر سامنے آتے رہے ہیں، کیا سکندر مر زا، غلام محمد ،ایوب خاں اور یحییٰ خاں کے قصوں کو دنیا بھول جائے گی ۔

حکومت کی بقاء کے لیے عدل وانصاف ضروری ہے

بہر حال بقائے مملکت اور بقائے حکومت کے لیے بے حد ضروری ہے کہ اربابِ اقتدار عدل وانصاف کو قائم کریں اور قوم فسق ومعصیت کا راستہ ترک کرکے انابت اور رجوع الی اللہ کا راستہ اختیار کرے۔ دنیا کی تاریخ بالعموم اور اسلامی تاریخ بالخصوص اس حقیقت پر شاہد ہے کہ مسلمان قوم کو من حیث القوم ناؤ نوش، فسق وفجور اورفحاشی وبدکاری کبھی راس نہیں آئی اور اس کا انجام ہمیشہ ہو لناک ہوا۔پاکستان کی پاک سر زمین جوحق تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی اس کا تقاضا یہ تھا کہ یہاں عدل وانصاف کا دور دورہ ہوتا، پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا، تقویٰ وطہارت کی فضا قائم ہوتی، راعی اور رعایا اسلام کا سچا نمونہ پیش کرتے اور یہ مملکتِ خداداد دورِ جد ید میں اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کی علمبر دار ہوتی، لیکن افسوس صدا فسوس کہ: